عن يحيى بن سعيد، انه سمع سليمان بن يسار، يذكر ان الموضحة في الوجه مثل الموضحة في الراس، إلا ان تعيب الوجه فيزاد في عقلها، ما بينها وبين عقل نصف الموضحة في الراس، فيكون فيها خمسة وسبعون دينارا. عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍٍ، يَذْكُرُ أَنَّ الْمُوضِحَةَ فِي الْوَجْهِ مِثْلُ الْمُوضِحَةِ فِي الرَّأْسِ، إِلَّا أَنْ تَعِيبَ الْوَجْهَ فَيُزَادُ فِي عَقْلِهَا، مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ عَقْلِ نِصْفِ الْمُوضِحَةِ فِي الرَّأْسِ، فَيَكُونُ فِيهَا خَمْسَةٌ وَسَبْعُونَ دِينَارًا.
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ موضحہ چہرے میں ایسا ہے جیسے موضحہ سر میں، مگر جب چہرے میں اس کی وجہ سے کوئی عیب ہو جائے تو دیت بڑھا دی جائے گی۔ موضحہ سر کے آدھے تک ہو تو اس میں پچھتر (75) دینار لازم ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16201، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17332، 18018، 18019، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 26816، 27864، 27874، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 6ق5»
قال مالك: والمنقلة التي يطير فراشها من العظم، ولا تخرق إلى الدماغ، وهي تكون في الراس وفي الوجه. قَالَ مَالِكٌ: وَالْمُنَقِّلَةُ الَّتِي يَطِيرُ فِرَاشُهَا مِنَ الْعَظْمِ، وَلَا تَخْرِقُ إِلَى الدِّمَاغِ، وَهِيَ تَكُونُ فِي الرَّأْسِ وَفِي الْوَجْهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ منقلہ وہ ضرب ہے جس سے ہڈی اپنے مقام سے جدا ہو جائے اور دماغ تک نہ پہنچے، اور وہ سر اور منہ میں ہوتی ہے۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا ان المامومة والجائفة ليس فيهما قود. وقد قال ابن شهاب: ليس في المامومة قود. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْمَأْمُومَةَ وَالْجَائِفَةَ لَيْسَ فِيهِمَا قَوَدٌ. وَقَدْ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: لَيْسَ فِي الْمَأْمُومَةِ قَوَدٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ مامومہ اور جائفہ میں قصاص نہیں ہے، اور ابن شہاب نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ مامومہ میں قصاص نہیں ہے۔
قال مالك: والمامومة ما خرق العظم إلى الدماغ، ولا تكون المامومة إلا في الراس، وما يصل إلى الدماغ إذا خرق العظم. قَالَ مَالِكٌ: وَالْمَأْمُومَةُ مَا خَرَقَ الْعَظْمَ إِلَى الدِّمَاغِ، وَلَا تَكُونُ الْمَأْمُومَةُ إِلَّا فِي الرَّأْسِ، وَمَا يَصِلُ إِلَى الدِّمَاغِ إِذَا خَرَقَ الْعَظْمَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مامومہ وہ ضرب ہے جو دماغ تک پہنچ جائے ہڈی توڑ کر، اور مامومہ سر ہی میں ہوا کرتی ہے۔
قال مالك: الامر عندنا انه ليس فيما دون الموضحة من الشجاج عقل. حتى تبلغ الموضحة، وإنما العقل في الموضحة فما فوقها. وذلك ان رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم انتهى إلى الموضحة في كتابه لعمرو بن حزم فجعل فيها خمسا من الإبل، ولم تقض الائمة في القديم، ولا في الحديث فيما دون الموضحة بعقل. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَيْسَ فِيمَا دُونَ الْمُوضِحَةِ مِنَ الشِّجَاجِ عَقْلٌ. حَتَّى تَبْلُغَ الْمُوضِحَةَ، وَإِنَّمَا الْعَقْلُ فِي الْمُوضِحَةِ فَمَا فَوْقَهَا. وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَهَى إِلَى الْمُوضِحَةِ فِي كِتَابِهِ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَجَعَلَ فِيهَا خَمْسًا مِنَ الْإِبِلِ، وَلَمْ تَقْضِ الْأَئِمَّةُ فِي الْقَدِيمِ، وَلَا فِي الْحَدِيثِ فِيمَا دُونَ الْمُوضِحَةِ بِعَقْلٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ موضحہ سے کم جو زخم ہو اس میں دیت نہیں ہے جب تک کہ موضحہ تک نہ پہنچے، بلکہ دیت موضحہ میں ہے یا جو اس سے بھی زیادہ ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو بن حزم کی حدیث میں موضحہ میں پانچ اونٹ ہیں، اس سے کم کو بیان نہ کیا، نہ کسی امام نے زمانۂ سابق یا حال میں موضحہ سے کم میں دیت کا حکم کیا۔