حدثني حدثني مالك، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، انه قال: خرج عبد الله، وعبيد الله ابنا عمر بن الخطاب في جيش إلى العراق، فلما قفلا مرا على ابي موسى الاشعري وهو امير البصرة، فرحب بهما وسهل، ثم قال: لو اقدر لكما على امر انفعكما به لفعلت، ثم قال: بلى هاهنا مال من مال الله اريد ان ابعث به إلى امير المؤمنين فاسلفكماه فتبتاعان به متاعا من متاع العراق، ثم تبيعانه بالمدينة، فتؤديان راس المال إلى امير المؤمنين ويكون الربح لكما. فقالا: وددنا ذلك. ففعل، وكتب إلى عمر بن الخطاب ان ياخذ منهما المال، فلما قدما باعا فاربحا، فلما دفعا ذلك إلى عمر، قال:" اكل الجيش اسلفه مثل ما اسلفكما؟" قالا: لا. فقال عمر بن الخطاب:" ابنا امير المؤمنين، فاسلفكما اديا المال وربحه". فاما عبد الله فسكت، واما عبيد الله، فقال: ما ينبغي لك يا امير المؤمنين هذا، لو نقص هذا المال او هلك لضمناه. فقال عمر:" ادياه". فسكت عبد الله وراجعه عبيد الله، فقال رجل من جلساء عمر: يا امير المؤمنين، لو جعلته قراضا. فقال عمر" قد جعلته قراضا" . فاخذ عمر راس المال ونصف ربحه، واخذ عبد الله، وعبيد الله ابنا عمر بن الخطاب نصف ربح المالحَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ ابْنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي جَيْشٍ إِلَى الْعِرَاقِ، فَلَمَّا قَفَلَا مَرَّا عَلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَهُوَ أَمِيرُ الْبَصْرَةِ، فَرَحَّبَ بِهِمَا وَسَهَّلَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَقْدِرُ لَكُمَا عَلَى أَمْرٍ أَنْفَعُكُمَا بِهِ لَفَعَلْتُ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى هَاهُنَا مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّهِ أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَ بِهِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَأُسْلِفُكُمَاهُ فَتَبْتَاعَانِ بِهِ مَتَاعًا مِنْ مَتَاعِ الْعِرَاقِ، ثُمَّ تَبِيعَانِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَتُؤَدِّيَانِ رَأْسَ الْمَالِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَيَكُونُ الرِّبْحُ لَكُمَا. فَقَالَا: وَدِدْنَا ذَلِكَ. فَفَعَلَ، وَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُمَا الْمَالَ، فَلَمَّا قَدِمَا بَاعَا فَأُرْبِحَا، فَلَمَّا دَفَعَا ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ، قَالَ:" أَكُلُّ الْجَيْشِ أَسْلَفَهُ مِثْلَ مَا أَسْلَفَكُمَا؟" قَالَا: لَا. فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:" ابْنَا أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَسْلَفَكُمَا أَدِّيَا الْمَالَ وَرِبْحَهُ". فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَسَكَتَ، وَأَمَّا عُبَيْدُ اللَّهِ، فَقَالَ: مَا يَنْبَغِي لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا، لَوْ نَقَصَ هَذَا الْمَالُ أَوْ هَلَكَ لَضَمِنَّاهُ. فَقَالَ عُمَرُ:" أَدِّيَاهُ". فَسَكَتَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَاجَعَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ عُمَرَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَوْ جَعَلْتَهُ قِرَاضًا. فَقَالَ عُمَرُ" قَدْ جَعَلْتُهُ قِرَاضًا" . فَأَخَذَ عُمَرُ رَأْسَ الْمَالِ وَنِصْفَ رِبْحِهِ، وَأَخَذَ عَبْدُ اللَّهِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ ابْنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نِصْفَ رِبْحِ الْمَالِ
حضرت زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ اور سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہما بیٹے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایک لشکر کے ساتھ نکلے جہاد کے واسطے عراق کی طرف، جب لوٹے تو سیدنا ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو حاکم تھے بصرہ کے۔ انہوں نے کہا: مرحباً اور سہلاً، پھر کہا: کاش میں تم کو کچھ نفع پہنچا سکتا تو پہنچاتا، میرے پاس کچھ روپیہ ہے اللہ کا جس کو میں بھیجنا چاہتا ہوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس، تو میں وہ روپے تم کو قرض دے دیتا ہوں، اس کا اسباب خرید لو عراق سے، پھر مدینہ میں اس مال کو بیچ کر اصل روپیہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیدینا اور نفع تم لے لینا۔ انہوں نے کہا: ہم بھی یہ چاہتے ہیں۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ ان دونوں سے اصل روپیہ وصول کر لیجئے گا۔ جب دونوں مدینہ کو آئے، انہوں نے مال بیچا اور نفع حاصل کیا، پھر اصل مال لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لشکر کے سب لوگوں کو اتنا اتنا روپیہ قرض دیا تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم کو امیر المؤمنین کا بیٹا سمجھ کر یہ روپیہ دیا ہوگا، اصل روپیہ اور نفع دونوں دے دو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تو چپ ہو رہے اور سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اگر مال تلف ہوتا یا نقصان ہوتا تو ہم ضمان دیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، دے دو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ چپ ہو رہے۔ سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے پھر جواب دیا، اتنے میں ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مصاحبوں میں سے (سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) بولے: اے امیر المؤمنین! تم اس کو مضاربت کر دو تو بہتر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اصل مال اور نصف نفع لیا، اور سیدنا عبداللہ اور سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہما نے آدھا نفع لیا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11605، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3702، والشافعي فى «الاُم» برقم: 33/4، والشافعي فى «المسنده» برقم: 357/2، فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 1»