قال مالك: والملامسة: ان يلمس الرجل الثوب ولا ينشره ولا يتبين ما فيه او يبتاعه ليلا ولا يعلم ما فيه. والمنابذة: ان ينبذ الرجل إلى الرجل ثوبه وينبذ الآخر إليه ثوبه على غير تامل منهما، ويقول كل واحد منهما: هذا بهذا، فهذا الذي نهي عنه من الملامسة والمنابذة. قَالَ مَالِك: وَالْمُلَامَسَةُ: أَنْ يَلْمِسَ الرَّجُلُ الثَّوْبَ وَلَا يَنْشُرُهُ وَلَا يَتَبَيَّنُ مَا فِيهِ أَوْ يَبْتَاعَهُ لَيْلًا وَلَا يَعْلَمُ مَا فِيهِ. وَالْمُنَابَذَةُ: أَنْ يَنْبِذَ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ ثَوْبَهُ وَيَنْبِذَ الْآخَرُ إِلَيْهِ ثَوْبَهُ عَلَى غَيْرِ تَأَمُّلٍ مِنْهُمَا، وَيَقُولُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: هَذَا بِهَذَا، فَهَذَا الَّذِي نُهِيَ عَنْهُ مِنَ الْمُلَامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ملامسہ اس کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑے کو چھو کر خرید کر لے، نہ اس کو کھولے نہ اندر سے دیکھے، یا اندھیری رات میں خریدے، نہ جانے اس میں کیا ہے۔ اور منابذ ہ اس کو کہتے ہیں کہ بائع اپنا کپڑا مشتری کی طرف پھینک دے، اور مشتری اپنا کپڑا بائع کی طرف، نہ سوچیں نہ بچاریں، یہ اس کے بدلے میں اور وہ اس کے بارے میں، یہ دونوں ممنوع ہیں۔
قال مالك في الساج المدرج في جرابه، او الثوب القبطي المدرج في طيه: إنه لا يجوز بيعهما حتى ينشرا وينظر إلى ما في اجوافهما، وذلك ان بيعهما من بيع الغرر وهو من الملامسة. قَالَ مَالِك فِي السَّاجِ الْمُدْرَجِ فِي جِرَابِهِ، أَوِ الثَّوْبِ الْقُبْطِيِّ الْمُدْرَجِ فِي طَيِّهِ: إِنَّهُ لَا يَجُوزُ بَيْعُهُمَا حَتَّى يُنْشَرَا وَيُنْظَرَ إِلَى مَا فِي أَجْوَافِهِمَا، وَذَلِكَ أَنَّ بَيْعَهُمَا مِنْ بَيْعِ الْغَرَرِ وَهُوَ مِنَ الْمُلَامَسَةِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو تھان تہہ کیا، یا چادر بستے میں بندھی ہو، تو اس کا بیچنا درست نہیں جب تک کھول کر اندر نہ دیکھے۔
قال مالك: وبيع الاعدال على البرنامج، مخالف لبيع الساج في جرابه والثوب في طيه وما اشبه ذلك، فرق بين ذلك الامر المعمول به ومعرفة ذلك في صدور الناس وما مضى من عمل الماضين فيه، وانه لم يزل من بيوع الناس الجائزة والتجارة بينهم التي لا يرون بها باسا، لان بيع الاعدال على البرنامج على غير نشر لا يراد به الغرر، وليس يشبه الملامسةقَالَ مَالِك: وَبَيْعُ الْأَعْدَالِ عَلَى الْبَرْنَامَجِ، مُخَالِفٌ لِبَيْعِ السَّاجِ فِي جِرَابِهِ وَالثَّوْبِ فِي طَيِّهِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَرَقَ بَيْنَ ذَلِكَ الْأَمْرُ الْمَعْمُولُ بِهِ وَمَعْرِفَةُ ذَلِكَ فِي صُدُورِ النَّاسِ وَمَا مَضَى مِنْ عَمَلِ الْمَاضِينَ فِيهِ، وَأَنَّهُ لَمْ يَزَلْ مِنْ بُيُوعِ النَّاسِ الْجَائِزَةِ وَالتِّجَارَةِ بَيْنَهُمُ الَّتِي لَا يَرَوْنَ بِهَا بَأْسًا، لِأَنَّ بَيْعَ الْأَعْدَالِ عَلَى الْبَرْنَامَجِ عَلَى غَيْرِ نَشْرٍ لَا يُرَادُ بِهِ الْغَرَرُ، وَلَيْسَ يُشْبِهُ الْمُلَامَسَةَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ برنامے کی بیع کا یہ حکم نہیں، وہ جائز ہے، اس لئے کہ ہمیشہ سے لوگ اس کو کر تے ہوئے آئے اور اس سے دھوکا دینا مقصود نہیں ہوتا۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا في البز يشتريه الرجل ببلد، ثم يقدم به بلدا آخر، فيبيعه مرابحة إنه لا يحسب فيه اجر السماسرة، ولا اجر الطي، ولا الشد، ولا النفقة، ولا كراء بيت، فاما كراء البز في حملانه، فإنه يحسب في اصل الثمن، ولا يحسب فيه ربح، إلا ان يعلم البائع من يساومه بذلك كله، فإن ربحوه على ذلك كله بعد العلم به فلا باس به. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْبَزِّ يَشْتَرِيهِ الرَّجُلُ بِبَلَدٍ، ثُمَّ يَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا آخَرَ، فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً إِنَّهُ لَا يَحْسِبُ فِيهِ أَجْرَ السَّمَاسِرَةِ، وَلَا أَجْرَ الطَّيِّ، وَلَا الشَّدِّ، وَلَا النَّفَقَةَ، وَلَا كِرَاءَ بَيْتٍ، فَأَمَّا كِرَاءُ الْبَزِّ فِي حُمْلَانِهِ، فَإِنَّهُ يُحْسَبُ فِي أَصْلِ الثَّمَنِ، وَلَا يُحْسَبُ فِيهِ رِبْحٌ، إِلَّا أَنْ يُعْلِمَ الْبَائِعُ مَنْ يُسَاوِمُهُ بِذَلِكَ كُلِّهِ، فَإِنْ رَبَّحُوهُ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ بَعْدَ الْعِلْمِ بِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے: جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کر کے دوسرے شہر میں لائے، پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے، تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی، اور تہہ کرنے کی مزدوری، اور باندھا بوندھی کی اجرت، اور اپناخرچ، اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے، البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کر لے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری کو اطلاع دے، اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہوجائے، تو کچھ قباحت نہیں۔
قال مالك: فاما القصارة، والخياطة، والصباغ، وما اشبه ذلك، فهو بمنزلة البز يحسب فيه الربح كما يحسب في البز، فإن باع البز، ولم يبين شيئا مما سميت إنه لا يحسب له فيه ربح، فإن فات البز، فإن الكراء يحسب، ولا يحسب عليه ربح، فإن لم يفت البز فالبيع مفسوخ بينهما، إلا ان يتراضيا على شيء مما يجوز بينهما. قَالَ مَالِكٌ: فَأَمَّا الْقِصَارَةُ، وَالْخِيَاطَةُ، وَالصِّبَاغُ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْبَزِّ يُحْسَبُ فِيهِ الرِّبْحُ كَمَا يُحْسَبُ فِي الْبَزِّ، فَإِنْ بَاعَ الْبَزَّ، وَلَمْ يُبَيِّنْ شَيْئًا مِمَّا سَمَّيْتُ إِنَّهُ لَا يُحْسَبُ لَهُ فِيهِ رِبْحٌ، فَإِنْ فَاتَ الْبَزُّ، فَإِنَّ الْكِرَاءَ يُحْسَبُ، وَلَا يُحْسَبُ عَلَيْهِ رِبْحٌ، فَإِنْ لَمْ يَفُتِ الْبَزُّ فَالْبَيْعُ مَفْسُوخٌ بَيْنَهُمَا، إِلَّا أَنْ يَتَرَاضَيَا عَلَى شَيْءٍ مِمَّا يَجُوزُ بَيْنَهُمَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کپڑوں کی دھلائی اور رنگوائی اس لاگت میں داخل ہوگی، اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا، اب اگر کپڑا تلف ہوگیا تو کرایہ بار برداری کا محسوب ہوگا، مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کردیں گے، جب دونوں راضی ہوجائیں کسی امر پر۔
قال مالك: في الرجل يشتري المتاع بالذهب او بالورق، والصرف يوم اشتراه عشرة دراهم بدينار، فيقدم به بلدا فيبيعه مرابحة، او يبيعه حيث اشتراه مرابحة على صرف ذلك اليوم الذي باعه فيه، فإنه إن كان ابتاعه بدراهم، وباعه بدنانير، او ابتاعه بدنانير، وباعه بدراهم، وكان المتاع لم يفت، فالمبتاع بالخيار إن شاء اخذه، وإن شاء تركه، فإن فات المتاع كان للمشتري بالثمن الذي ابتاعه به البائع، ويحسب للبائع الربح على ما اشتراه به على ما ربحه المبتاع. قَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْمَتَاعَ بِالذَّهَبِ أَوْ بِالْوَرِقِ، وَالصَّرْفُ يَوْمَ اشْتَرَاهُ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ بِدِينَارٍ، فَيَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً، أَوْ يَبِيعُهُ حَيْثُ اشْتَرَاهُ مُرَابَحَةً عَلَى صَرْفِ ذَلِكَ الْيَوْمِ الَّذِي بَاعَهُ فِيهِ، فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ ابْتَاعَهُ بِدَرَاهِمَ، وَبَاعَهُ بِدَنَانِيرَ، أَوِ ابْتَاعَهُ بِدَنَانِيرَ، وَبَاعَهُ بِدَرَاهِمَ، وَكَانَ الْمَتَاعُ لَمْ يَفُتْ، فَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ أَخَذَهُ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ، فَإِنْ فَاتَ الْمَتَاعُ كَانَ لِلْمُشْتَرِي بِالثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهُ بِهِ الْبَائِعُ، وَيُحْسَبُ لِلْبَائِعِ الرِّبْحُ عَلَى مَا اشْتَرَاهُ بِهِ عَلَى مَا رَبَّحَهُ الْمُبْتَاعُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کوئی اسباب سونے یا چاندی کے بدلے میں خریدا، تو اس دن چاندی سونے کا بھاؤ یہ تھا کہ دس درہم کو ایک دینار آتا تھا، پھر مشتری اس مال کو لے کر دوسرے شہر میں آیا، اور اسی شہر میں مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہا اسی نرخ پر جو سونے چاندی کا اس دن تھا، اگر اس نے دراہم کے بدلے میں خریدا تھا اور دیناروں کے بدلے میں بیچا، یا دیناروں کے بدلے میں خریدا تھا اور درہموں کے بدلے میں بیچا، اور اسباب موجود ہے تلف نہیں ہوا، تو خریدار کو اختیار ہوگا چاہے لے چاہے نہ لے، اور اگر وہ اسباب تلف ہوگیا تو مشتری سے وہ ثمن جس کے عوض میں بائع نے خریدا تھا نفع حساب کر کے بائع کو دلا دیں گے۔
قال مالك: وإذا باع رجل سلعة قامت عليه بمائة دينار، للعشرة احد عشر، ثم جاءه بعد ذلك انها قامت عليه بتسعين دينارا، وقد فاتت السلعة خير البائع، فإن احب فله قيمة سلعته يوم قبضت منه، إلا ان تكون القيمة اكثر من الثمن الذي وجب له به البيع اول يوم، فلا يكون له اكثر من ذلك، وذلك مائة دينار وعشرة دنانير، وإن احب ضرب له الربح على التسعين، إلا ان يكون الذي بلغت سلعته من الثمن اقل من القيمة فيخير في الذي بلغت سلعته وفي راس ماله وربحه وذلك تسعة وتسعون دينارا. قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا بَاعَ رَجُلٌ سِلْعَةً قَامَتْ عَلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ، لِلْعَشَرَةِ أَحَدَ عَشَرَ، ثُمَّ جَاءَهُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَامَتْ عَلَيْهِ بِتِسْعِينَ دِينَارًا، وَقَدْ فَاتَتِ السِّلْعَةُ خُيِّرَ الْبَائِعُ، فَإِنْ أَحَبَّ فَلَهُ قِيمَةُ سِلْعَتِهِ يَوْمَ قُبِضَتْ مِنْهُ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْقِيمَةُ أَكْثَرَ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي وَجَبَ لَهُ بِهِ الْبَيْعُ أَوَّلَ يَوْمٍ، فَلَا يَكُونُ لَهُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، وَذَلِكَ مِائَةُ دِينَارٍ وَعَشْرَةُ دَنَانِيرَ، وَإِنْ أَحَبَّ ضُرِبَ لَهُ الرِّبْحُ عَلَى التِّسْعِينَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ الَّذِي بَلَغَتْ سِلْعَتُهُ مِنَ الثَّمَنِ أَقَلَّ مِنَ الْقِيمَةِ فَيُخَيَّرُ فِي الَّذِي بَلَغَتْ سِلْعَتُهُ وَفِي رَأْسِ مَالِهِ وَرِبْحِهِ وَذَلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِينَارًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے اپنی چیز جو سو دینار کو پڑی تھی، دس فی صدی کے نفع پر بیچی، پھر معلوم ہوا کہ وہ چیز نوے دینار کو پڑی تھی، اور وہ چیز مشتری کے پاس تلف ہوگئی، تو اب بائع کو اختیار ہوگا چاہے اس چیز کی قیمت بازار کی لے لے، اس دن کی قیمت جس دن وہ شئے مشتری کے پاس آئی تھی، مگر جس صورت میں قیمت بازار کی اس ثمن سے جو اول میں ٹھہری تھی، یعنی ایک سو دس دینار سے زیادہ ہو، تو بائع کو ایک سو دس دینار سے زیادہ نہ ملیں گے، اور اگر چاہے تو نوے دینار پر اسی حساب سے نفع لگا کر، یعنی ننانوے دینار لے لے مگر جس صورت میں یہ ثمن قیمت سے کم ہو تو بائع کا اختیار ہوگا۔
قال مالك: وإن باع رجل سلعة مرابحة، فقال: قامت علي بمائة دينار. ثم جاءه بعد ذلك انها قامت بمائة وعشرين دينارا. خير المبتاع. فإن شاء اعطى البائع قيمة السلعة يوم قبضها، وإن شاء اعطى الثمن الذي ابتاع به على حساب ما ربحه. بالغا ما بلغ. إلا ان يكون ذلك اقل من الثمن الذي ابتاع به السلعة. فليس له ان ينقص رب السلعة من الثمن الذي ابتاعها به، لانه قد كان رضي بذلك، وإنما جاء رب السلعة يطلب الفضل فليس للمبتاع في هذا حجة على البائع. بان يضع من الثمن الذي ابتاع به على البرنامج. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنْ بَاعَ رَجُلٌ سِلْعَةً مُرَابَحَةً، فَقَالَ: قَامَتْ عَلَيَّ بِمِائَةِ دِينَارٍ. ثُمَّ جَاءَهُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَامَتْ بِمِائَةٍ وَعِشْرِينَ دِينَارًا. خُيِّرَ الْمُبْتَاعُ. فَإِنْ شَاءَ أَعْطَى الْبَائِعَ قِيمَةَ السِّلْعَةِ يَوْمَ قَبَضَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَعْطَى الثَّمَنَ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ عَلَى حِسَابِ مَا رَبَّحَهُ. بَالِغًا مَا بَلَغَ. إِلَّا أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ أَقَلَّ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ السِّلْعَةَ. فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُنَقِّصَ رَبَّ السِّلْعَةِ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ، لِأَنَّهُ قَدْ كَانَ رَضِيَ بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا جَاءَ رَبُّ السِّلْعَةِ يَطْلُبُ الْفَضْلَ فَلَيْسَ لِلْمُبْتَاعِ فِي هَذَا حُجَّةٌ عَلَى الْبَائِعِ. بِأَنْ يَضَعَ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ عَلَى الْبَرْنَامَجِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایک چیز مرابحہ پر بیچی اور کہا سو دینار کو مجھ کو پڑی ہے، پھر اس کو معلوم ہوا ایک سو بیس دینار کو پڑی، تو اب خریدار کو اختیار ہوگا، اگر چاہے تو بائع کا اس دن کی قیمت بازار کی جس دن وہ شئے لی ہے دے دے، اور اگر چاہے تو جس ثمن پر خرید کیا ہے نفع لگا کر جہاں تک پہنچے دے، مگر جس صورت میں قیمت بازار کی پہلی ثمن سے (یعنی جو سو دینار پر لگی ہے) کم ہو تو مشتری کو یہ نہیں پہنچتا کہ اس سے کم دے، اس واسطے کہ مشتری اس پر راضی ہوچکا ہے، مگر بائع نے اس سے زیادہ بیان کیا تو خریدار کو اصلی ثمن سے کم کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔