وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، انه قال: " ليس على المستحاضة إلا ان تغتسل غسلا واحدا ثم تتوضا بعد ذلك لكل صلاة" . قال يحيى: قال مالك: الامر عندنا ان المستحاضة إذا صلت ان لزوجها ان يصيبها، وكذلك النفساء إذا بلغت اقصى ما يمسك النساء الدم، فإن رات الدم بعد ذلك فإنه يصيبها زوجها وإنما هي بمنزلة المستحاضة. قال يحيى. قال مالك: الامر عندنا في المستحاضة على حديث هشام بن عروة، عن ابيه، وهو احب ما سمعت إلي في ذلكوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ عَلَى الْمُسْتَحَاضَةِ إِلَّا أَنْ تَغْتَسِلَ غُسْلًا وَاحِدًا ثُمَّ تَتَوَضَّأُ بَعْدَ ذَلِكَ لِكُلِّ صَلَاةٍ" . قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ إِذَا صَلَّتْ أَنَّ لِزَوْجِهَا أَنْ يُصِيبَهَا، وَكَذَلِكَ النُّفَسَاءُ إِذَا بَلَغَتْ أَقْصَى مَا يُمْسِكُ النِّسَاءَ الدَّمُ، فَإِنْ رَأَتِ الدَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ يُصِيبُهَا زَوْجُهَا وَإِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْمُسْتَحَاضَةِ. قَالَ يَحْيَى. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الْمُسْتَحَاضَةِ عَلَى حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهُوَ أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، کہا انہوں نے: مستحاضہ پر ایک ہی غسل ہے، پھر وضو کیا کرے ہر نماز کے لیے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ مستحاضہ جب نماز پڑھنے لگے تو خاوند کو جماع بھی درست ہے۔ اسی طرح نفساء تو جب مدت مقرر کی انتہاء تک خون آئے اور بعد اس کے بھی خون دیکھے تو خاوند اس سے جماع کر سکتا ہے، اور یہ خون بھی منزلہ استحاضہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک حکم مستحاضہ کا عروہ کی حدیث کے موافق ہے، جس کو روایت کیا عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، جو ابتدائے باب میں گزری اور جتنی روایتیں میں نے اس باب میں سنیں اُن سے مجھ کو وہ روایت زیادہ پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1579، 1652، 1673، 1674، والدارمي فى «مسنده» برقم: 806، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 1362، شركة الحروف نمبر: 126، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 108»