سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص غلام کو بیچے اور اسکے پاس مال ہو تو وہ مال بائع کو ملے گا۔ مگر جب خریدار شرط کر لے کہ وہ مال میں لوں گا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2379، و أبو داود فى «سننه» برقم: 3434، 3433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1244، والنسائی فى «الكبريٰ» برقم: 4978، 4989، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 2»
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا: ان المبتاع إن اشترط مال العبد، فهو له، نقدا كان او دينا، او عرضا يعلم او لا يعلم، وإن كان للعبد من المال اكثر مما اشترى به، كان ثمنه نقدا او دينا او عرضا، وذلك ان مال العبد ليس على سيده فيه زكاة. وإن كانت للعبد جارية استحل فرجها بملكه إياها، وإن عتق العبد، او كاتب تبعه ماله، وإن افلس اخذ الغرماء ماله، ولم يتبع سيده بشيء من دينهقَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا: أَنَّ الْمُبْتَاعَ إِنِ اشْتَرَطَ مَالَ الْعَبْدِ، فَهُوَ لَهُ، نَقْدًا كَانَ أَوْ دَيْنًا، أَوْ عَرْضًا يُعْلَمُ أَوْ لَا يُعْلَمُ، وَإِنْ كَانَ لِلْعَبْدِ مِنَ الْمَالِ أَكْثَرُ مِمَّا اشْتَرَى بِهِ، كَانَ ثَمَنُهُ نَقْدًا أَوْ دَيْنًا أَوْ عَرْضًا، وَذَلِكَ أَنَّ مَالَ الْعَبْدِ لَيْسَ عَلَى سَيِّدِهِ فِيهِ زَكَاةٌ. وَإِنْ كَانَتْ لِلْعَبْدِ جَارِيَةٌ اسْتَحَلَّ فَرْجَهَا بِمِلْكِهِ إِيَّاهَا، وَإِنْ عَتَقَ الْعَبْدُ، أَوْ كَاتَبَ تَبِعَهُ مَالُهُ، وَإِنْ أَفْلَسَ أَخَذَ الْغُرَمَاءُ مَالَهُ، وَلَمْ يُتَّبَعْ سَيِّدُهُ بِشَيْءٍ مِنْ دَيْنِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کر لے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا، نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو، معلوم ہو یا نہ معلوم ہو، اگرچہ وہ مال اس زرِ ثمن سے زیادہ ہو جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے، کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰة نہیں ہے، وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا، اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہوگی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہو جائے گا، اور اگر یہ غلام آزاد ہو جاتا یا مکاتب، تو اس کا مال اسی کو ملتا، اگر مفلس ہو جاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا، اس کے مولیٰ سے مؤاخذہ نہ ہوتا۔