وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن غير واحد، ان عبد الله بن مسعود استفتي وهو بالكوفة، عن نكاح الام بعد الابنة، إذا لم تكن الابنة مست، فارخص في ذلك، ثم إن ابن مسعود قدم المدينة، فسال عن ذلك، فاخبر انه ليس كما قال، وإنما الشرط في الربائب، فرجع ابن مسعود إلى الكوفة، فلم يصل إلى منزله حتى اتى الرجل الذي افتاه بذلك، " فامره ان يفارق امراته" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ اسْتُفْتِيَ وَهُوَ بِالْكُوفَةِ، عَنْ نِكَاحِ الْأُمِّ بَعْدَ الْابْنَةِ، إِذَا لَمْ تَكُنْ الِابْنَةُ مُسَّتْ، فَأَرْخَصَ فِي ذَلِكَ، ثُمَّ إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَسَأَلَ عَنْ ذَلِكَ، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ كَمَا قَالَ، وَإِنَّمَا الشَّرْطُ فِي الرَّبَائِبِ، فَرَجَعَ ابْنُ مَسْعُودٍ إِلَى الْكُوفَةِ، فَلَمْ يَصِلْ إِلَى مَنْزِلِهِ حَتَّى أَتَى الرَّجُلَ الَّذِي أَفْتَاهُ بِذَلِكَ، " فَأَمَرَهُ أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ" .
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کوفہ میں: ایک عورت سے نکاح کیا، پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا، اب اس کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ درست ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور تحقیق کی، معلوم ہوا کہ بی بی کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ بی بی سے صحبت کرے یا نہ کرے، اور صحبت کی قید ربائب میں ہے۔ جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ کو لوٹے، پہلے اس شخص کے مکان پر گئے جس کو مسئلہ بتایا تھا، اس سے کہا: اس عورت کو چھوڑ دے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13903، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16264، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10811، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 23»
قال مالك في الرجل تكون تحته المراة، ثم ينكح امها فيصيبها: إنها تحرم عليه امراته، ويفارقهما جميعا، ويحرمان عليه ابدا، إذا كان قد اصاب الام، فإن لم يصب الام، لم تحرم عليه امراته، وفارق الام.قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ تَكُونُ تَحْتَهُ الْمَرْأَةُ، ثُمَّ يَنْكِحُ أُمَّهَا فَيُصِيبُهَا: إِنَّهَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، وَيُفَارِقُهُمَا جَمِيعًا، وَيَحْرُمَانِ عَلَيْهِ أَبَدًا، إِذَا كَانَ قَدْ أَصَابَ الْأُمَّ، فَإِنْ لَمْ يُصِبْ الْأُمَّ، لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، وَفَارَقَ الْأُمَّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص نے نکاح کیا ایک عورت سے، پھر اس کی ماں سے نکاح کیا اور صحبت کی، تو دونوں ماں بیٹی اس کو حرام ہو جائیں گئی ہمیشہ ہمیشہ۔
وقال مالك في الرجل يتزوج المراة، ثم ينكح امها، فيصيبها: إنه لا تحل له امها ابدا، ولا تحل لابيه، ولا لابنه، ولا تحل له ابنتها، وتحرم عليه امراته وَقَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ يَنْكِحُ أُمَّهَا، فَيُصِيبُهَا: إِنَّهُ لَا تَحِلُّ لَهُ أُمُّهَا أَبَدًا، وَلَا تَحِلُّ لِأَبِيهِ، وَلَا لِابْنِهِ، وَلَا تَحِلُّ لَهُ ابْنَتُهَا، وَتَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: البتہ اگر ماں سے صحبت نہ کرے تو اس کو چھوڑ دے، اور بیٹی اس کی حلال رہے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص نکاح کرے ایک عورت سے، پھر نکاح کرے اس کی ماں سے اور صحبت کرے اس سے، تو ماں کی ماں بھی حرام ہو جائے گی اور ماں حرام رہے گی اس شخص کے باپ اور بیٹے پر۔
قال مالك: فاما الزنا، فإنه لا يحرم شيئا من ذلك، لان الله تبارك وتعالى قال: وامهات نسائكم سورة النساء آية 23، فإنما حرم ما كان تزويجا، ولم يذكر تحريم الزنا، فكل تزويج كان على وجه الحلال يصيب صاحبه امراته، فهو بمنزلة التزويج الحلال، فهذا الذي سمعت والذي عليه امر الناس عندناقَالَ مَالِكٌ: فَأَمَّا الزِّنَا، فَإِنَّهُ لَا يُحَرِّمُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ سورة النساء آية 23، فَإِنَّمَا حَرَّمَ مَا كَانَ تَزْوِيجًا، وَلَمْ يَذْكُرْ تَحْرِيمَ الزِّنَا، فَكُلُّ تَزْوِيجٍ كَانَ عَلَى وَجْهِ الْحَلَالِ يُصِيبُ صَاحِبُهُ امْرَأَتَهُ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ التَّزْوِيجِ الْحَلَالِ، فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ وَالَّذِي عَلَيْهِ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: زنا سے حرمت ثابت نہ ہوگی۔ یعنی اگر کسی عورت سے زنا کرے تو اس کی ماں اور بیٹی حرام نہ ہوگی، کیونکہ دارقطنی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس واسطے کہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا: ”حرام ہیں تم پر تمہاری مائیں تہاری بیبیوں کی۔“ تو حرام کیا اللہ نے ماؤں کو، ان کی بیبیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے، نہ زنا سے، تو جب نکاح کیا جائے گا کسی عورت سے اگرچہ وہ ناجائز ہو اس سے حرمت ثابت ہوگی، مگر زنا سے نہ ہوگی۔
قال مالك: في الرجل يزني بالمراة، فيقام عليه الحد فيها. إنه: ينكح ابنتها، وينكحها ابنه، إن شاء. وذلك انه اصابها حراما، وإنما الذي حرم اللٰه ما اصيب بالحلال، او على وجه الشبهة بالنكاح،قَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ، فَيُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ فِيهَا. إِنَّهُ: يَنْكِحُ ابْنَتَهَا، وَيَنْكِحُهَا ابْنُهُ، إِنْ شَاءَ. وَذَلِكَ أَنَّهُ أَصَابَهَا حَرَامًا، وَإِنَّمَا الَّذِي حَرَّمَ اللّٰهُ مَا أُصِيبَ بِالْحَلَالِ، أَوْ عَلَى وَجْهِ الشُّبْهَةِ بِالنِّكَاحِ،
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص زنا کرے ایک عورت سے اور اس کو حد لگائی جائے، اب وہ شخص اس عورت کی ماں یا بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے، اور اس شخص کا بیٹا اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے۔
قال مالك: فلو ان رجلا نكح امراة في عدتها، نكاحا حلالا، فاصابها، حرمت على ابنه ان يتزوجها، وذلك ان اباه نكحها على وجه الحلال، لا يقام عليه فيه الحد، ويلحق به الولد الذي يولد فيه بابيه، وكما حرمت على ابنه ان يتزوجها حين تزوجها ابوه في عدتها واصابها، فكذلك يحرم على الاب ابنتها إذا هو اصاب امها. قالَ مَالِكٌ: فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا نَكَحَ امْرَأَةً فِي عِدَّتِهَا، نِكَاحًا حَلَالًا، فَأَصَابَهَا، حَرُمَتْ عَلَى ابْنِهِ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا، وَذَلِكَ أَنَّ أَبَاهُ نَكَحَهَا عَلَى وَجْهِ الْحَلَالِ، لَا يُقَامُ عَلَيْهِ فِيهِ الْحَدُّ، وَيُلْحَقُ بِهِ الْوَلَدُ الَّذِي يُولَدُ فِيهِ بِأَبِيهِ، وَكَمَا حَرُمَتْ عَلَى ابْنِهِ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا حِينَ تَزَوَّجَهَا أَبُوهُ فِي عِدَّتِهَا وَأَصَابَهَا، فَكَذَلِكَ يَحْرُمُ عَلَى الْأَبِ ابْنَتُهَا إِذَا هُوَ أَصَابَ أُمَّهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر ایک شخص نے عدت کے اندر کسی عورت سے نکاح کیا، اور اس سے صحبت کی تو وہ عورت اس کے بیٹے پر حرام ہو جائے گی، اور اس عورت سے جو لڑکا پیدا ہوگا اس کا نسب اس شخص سے ثابت ہوگا، اور اس شخص پر اس عورت کی بیٹی حرام ہو جائے گی۔