وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، انه بلغه، عن سعد بن ابي وقاص، انه سئل عن الكلب المعلم، إذا قتل الصيد، فقال سعد: " كل، وإن لم تبق إلا بضعة واحدة" . وحدثني، عن مالك، انه سمع بعض اهل العلم يقولون في البازي، والعقاب، والصقر، وما اشبه ذلك: انه إذا كان يفقه كما تفقه الكلاب المعلمة، فلا باس باكل ما قتلت مما صادت، إذا ذكر اسم الله على إرسالها. قال مالك: واحسن ما سمعت في الذي يتخلص الصيد من مخالب البازي، او من الكلب، ثم يتربص به، فيموت، انه لا يحل اكله. قال مالك: وكذلك كل ما قدر على ذبحه، وهو في مخالب البازي، او في الكلب، فيتركه صاحبه وهو قادر على ذبحه، حتى يقتله البازي او الكلب، فإنه لا يحل اكله. قال مالك: وكذلك الذي يرمي الصيد، فيناله وهو حي، فيفرط في ذبحه حتى يموت، فإنه لا يحل اكله. قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان المسلم إذا ارسل كلب المجوسي الضاري، فصاد او قتل، إنه إذا كان معلما فاكل ذلك الصيد، حلال لا باس به، وإن لم يذكه المسلم، وإنما مثل ذلك مثل المسلم، يذبح بشفرة المجوسي، او يرمي بقوسه او بنبله، فيقتل بها، فصيده ذلك وذبيحته حلال لا باس باكله، وإذا ارسل المجوسي كلب المسلم الضاري على صيد، فاخذه، فإنه لا يؤكل ذلك الصيد إلا ان يذكى، وإنما مثل ذلك مثل قوس المسلم ونبله، ياخذها المجوسي فيرمي بها الصيد، فيقتله، وبمنزلة شفرة المسلم يذبح بها المجوسي، فلا يحل اكل شيء من ذلكوَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ، إِذَا قَتَلَ الصَّيْدَ، فَقَالَ سَعْدٌ: " كُلْ، وَإِنْ لَمْ تَبْقَ إِلَّا بَضْعَةٌ وَاحِدَةٌ" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ فِي الْبَازِي، وَالْعُقَابِ، وَالصَّقْرِ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ: أَنَّهُ إِذَا كَانَ يَفْقَهُ كَمَا تَفْقَهُ الْكِلَابُ الْمُعَلَّمَةُ، فَلَا بَأْسَ بِأَكْلِ مَا قَتَلَتْ مِمَّا صَادَتْ، إِذَا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَى إِرْسَالِهَا. قَالَ مَالِكٌ: وَأَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي الَّذِي يَتَخَلَّصُ الصَّيْدَ مِنْ مَخَالِبِ الْبَازِي، أَوْ مِنَ الْكَلْبِ، ثُمَّ يَتَرَبَّصُ بِهِ، فَيَمُوتُ، أَنَّهُ لَا يَحِلُّ أَكْلُهُ. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ كُلُّ مَا قُدِرَ عَلَى ذَبْحِهِ، وَهُوَ فِي مَخَالِبِ الْبَازِي، أَوْ فِي الْكَلْبِ، فَيَتْرُكُهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى ذَبْحِهِ، حَتَّى يَقْتُلَهُ الْبَازِي أَوِ الْكَلْبُ، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ أَكْلُهُ. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ الَّذِي يَرْمِي الصَّيْدَ، فَيَنَالُهُ وَهُوَ حَيٌّ، فَيُفَرِّطُ فِي ذَبْحِهِ حَتَّى يَمُوتَ، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ أَكْلُهُ. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَرْسَلَ كَلْبَ الْمَجُوسِيِّ الضَّارِيَ، فَصَادَ أَوْ قَتَلَ، إِنَّهُ إِذَا كَانَ مُعَلَّمًا فَأَكْلُ ذَلِكَ الصَّيْدِ، حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ، وَإِنْ لَمْ يُذَكِّهِ الْمُسْلِمُ، وَإِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، يَذْبَحُ بِشَفْرَةِ الْمَجُوسِيِّ، أَوْ يَرْمِي بِقَوْسِهِ أَوْ بِنَبْلِهِ، فَيَقْتُلُ بِهَا، فَصَيْدُهُ ذَلِكَ وَذَبِيحَتُهُ حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِأَكْلِهِ، وَإِذَا أَرْسَلَ الْمَجُوسِيُّ كَلْبَ الْمُسْلِمِ الضَّارِيَ عَلَى صَيْدٍ، فَأَخَذَهُ، فَإِنَّهُ لَا يُؤْكَلُ ذَلِكَ الصَّيْدُ إِلَّا أَنْ يُذَكَّى، وَإِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ مَثَلُ قَوْسِ الْمُسْلِمِ وَنَبْلِهِ، يَأْخُذُهَا الْمَجُوسِيُّ فَيَرْمِي بِهَا الصَّيْدَ، فَيَقْتُلُهُ، وَبِمَنْزِلَةِ شَفْرَةِ الْمُسْلِمِ يَذْبَحُ بِهَا الْمَجُوسِيُّ، فَلَا يَحِلُّ أَكْلُ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ سیکھتا ہوا کتا اگر شکار کو مار کر کھا لے تو؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کھا لے، جس قدر بچ رہے اگرچہ ایک ہی بوٹی ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے سنا اہلِ علم سے، کہتے تھے کہ باز اور عقاب اور صقر اور جو جانور ان کے مشابہ ہیں، اگر ان کو تعلیم دی جائے اور وہ سمجھدار ہو جائیں، جیسے سکھائے ہوئے کتے سمجھدار ہوتے ہیں، تو ان کا مارا ہوا جانور بھی درست ہے بشرطیکہ بسم اللہ کہہ کر چھوڑے جائیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر باز کے پنجے سے یا کتے کے منہ سے شکار چھوٹ کر مر جائے تو اس کا کھانا درست نہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس جانور کے ذبح کرنے پر آدمی قادر ہو جائے مگر اس کو ذبح نہ کرے اور باز کے پنجے یا کتے کے منہ میں رہنے دے یہاں تک کہ باز یا کتا اس کو مار ڈالے تو اس کا کھانا درست نہیں۔ اور فرمایا: کسی طرح اگر شکار کو تیر مارے پھر اس کو زندہ پائے اور ذبح کرنے میں دیر کرے یہاں تک کہ وہ جانور مر جائے تو اس کا کھانا درست نہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مسلمان مشرک کے سکھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑے اور وہ شکار کو جا کر مارے تو اس کا کھانا درست ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ مسلمان مشرک کی چھری سے کسی جانور کو ذبح کرے، یا اس کی تیر کمان لے کر شکار کرے تو اس جانور کا کھانا درست ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مشرک نے اگر مسلمان کے سکھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا تو اس شکار کا کھانا درست نہیں، جیسے مشرک مسلمان کی چھری سے کسی جانور کو ذبح کرے، یا مسلمان کا تیر کمان لے کر شکار کرے تو اس کا کھانا درست نہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18880 وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8518، فواد عبدالباقي نمبر: 25 - كِتَابُ الصَّيْدِ-ح: 7»