الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:907
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں لوگوں کو اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف اور صلہ رحمی کی دعوت دینی اس چاہیے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی خالص دعوت سے لوگ دشمنی پر اتر آتے ہیں تو ہمیں ان کی دشمنی کی پروا نہیں کرنی چاہیے، اس میں علماء کرام کے لیے واضح نصیحت ہے کہ انھیں ڈٹ کر اور صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر دین کی تبلیغ کرتے رہنا چاہیے، اور لوگوں کی مخالفت کی پروا نہیں کرنی چاہیے، علمائے حق کی یہی نشانی ہے اور رہے علماء سو جو لوگوں کے افکار کے مطابق شریعت کو بدل دیتے ہیں، قرآن و حدیث کی بجائے بدعات و خرافات کی تائید کرتے ہیں، صرف اس وجہ سے کہ لوگ ہماری مخالفت نہ کریں، اللہ تعالیٰ ٰ ایسے علماء کو سمجھ عطا فرمائے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ لوگوں کو مثلاً یں دے کر سمجھانا چاہیے، اس سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 906
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5226
´گھونگھرو اور گھنٹے کا بیان۔`
ابوالاحوص کے والد مالک بن نضلہ جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھٹیا کپڑے پہن کر آئے۔ تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟“ وہ بولے: جی ہاں، سب کچھ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کس طرح کا مال ہے؟“ وہ بولے: اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام عطا کئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل کے تم پر آثار بھی دکھائی دینے چاہیئے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5226]
اردو حاشہ:
لباس کسی کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، نیز عموما لباس سے انسان کی مالی، ذہنی اورسماجی حیثیت کا پتا بھی چلتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ لباس سے کسی کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کا پتا چلتا ہے، اس لیے لباس صاف ستھرا، باپردہ اورمالی لحاظ سے حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ البتہ فخر و تکبر نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح لباس وہی ہے جس میں کنجوسی، فضول خرچی، عریانی، ریاکاری اور فخر سے پرہیز کیا گیا ہو۔ لباس کے معاملے میں زیادہ تکلف بھی معیوب ہے جس سے انسان خود تنگی میں پڑجائے۔ ریشم پہنا اور لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکانا شرعاً حرام ہے، خواہ کسی بھی نیت سے ہو، البتہ شرعی عذر اور مجبوری قابل قبول ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5226
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5226
´گھونگھرو اور گھنٹے کا بیان۔`
ابوالاحوص کے والد مالک بن نضلہ جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھٹیا کپڑے پہن کر آئے۔ تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟“ وہ بولے: جی ہاں، سب کچھ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کس طرح کا مال ہے؟“ وہ بولے: اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام عطا کئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل کے تم پر آثار بھی دکھائی دینے چاہیئے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5226]
اردو حاشہ:
لباس کسی کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، نیز عموما لباس سے انسان کی مالی، ذہنی اورسماجی حیثیت کا پتا بھی چلتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ لباس سے کسی کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کا پتا چلتا ہے، اس لیے لباس صاف ستھرا، باپردہ اورمالی لحاظ سے حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ البتہ فخر و تکبر نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح لباس وہی ہے جس میں کنجوسی، فضول خرچی، عریانی، ریاکاری اور فخر سے پرہیز کیا گیا ہو۔ لباس کے معاملے میں زیادہ تکلف بھی معیوب ہے جس سے انسان خود تنگی میں پڑجائے۔ ریشم پہنا اور لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکانا شرعاً حرام ہے، خواہ کسی بھی نیت سے ہو، البتہ شرعی عذر اور مجبوری قابل قبول ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5226
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5296
´مستحب اور مکروہ لباس کا بیان۔`
ابوالاحوص کے والد عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے خستہ حالت میں دیکھا، تو فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کچھ مال و دولت ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر طرح کا مال دے رکھا ہے، آپ نے فرمایا: ”جب تمہارے پاس مال ہو تو اس کے آثار بھی نظر آنے چاہئیں ۱؎۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5296]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: 5225، 5226۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5296
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4063
´کپڑے دھونے کا اور پرانے کپڑوں کا بیان۔`
مالک بن نضلۃ الجشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم مالدار ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس قسم کا مال ہے؟“ تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے۔“ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4063]
فوائد ومسائل:
مستحب ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس وغیرہ استعمال کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے، مگر لازم ہے کہ بہت زیادہ مال داری کا اظہار بھی نہ ہو کیونکہ اس طرح دیگر مسلمانوں میں حسرت اور محرومی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جو ناپسندیدہ امر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4063
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2006
´احسان اور عفو و درگزر کا بیان۔`
مالک بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتا ہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے، کیا میں اس سے بدلہ لوں؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ”نہیں، (بلکہ) اس کی ضیافت کرو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا، تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری عطاء کی ہے، آپ نے فرمایا: ”تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیئے۔“ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2006]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یعنی بدلہ کے طورپر میں بھی اس کی میزبانی اور ضیافت نہ کروں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2006
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود 4063
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے“ [ابوداود 4063]
اللہ کی نعمت کے آثار بندے پر «إِذَا اَتَاكَ الله مالاً فَلْيُرَ عليك»
سوال:
کیا یہ حدیث صحیح ہے: ”بلا شبہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کے آثار اپنے بندے پر دیکھے“؟
الجواب:
سیدنا مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میری (ظاہری) حالت خراب تھی تو آپ نے فرمایا: کیا تمھارے پاس مال ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا مال ہے، اونٹ، غلام، گھوڑے اور بھیڑبکریاں سب کچھ ہے تو آپ نے فرمایا: ((إِذَا اَتَاکَ اللہ مالاً فَلْیُرَ علیک)) جب اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اس کا اثر تجھ پر نظر آنا چاہئے۔
(مسند احمد 3/ 473 ح 15888، وسندہ صحیح و صححہ ابن حبان 5416/5392 والحاکم 4/181 ح 7364 ووافقہ الذہبی)
یہ روایت بلحاظِ سند و متن بالکل صحیح ہے۔ اسے ابو داود (ح 4063) اور نسائی (8/ 181 ح5225، 5226) نے بھی ”أبو إسحاق السبیعي عن أبی الأحوص بن مالک بن نضلۃ عن أبیہ“ کی سند سے بیان کیا ہے۔ ابو اسحاق کی یہ روایت اختلاط سے پہلے کی ہے اور انھوں نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ والحمد للہ
سنن ابی داود کے الفاظ درج ذیل ہیں:
«فإذا آتاك الله مالاً فلير أثر نعمة الله عليك و كرامته»
پس جب اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اللہ کی نعمت اور سخاوت کا اثر تجھ پر نظر آنا چاہئے۔
[طبع دارالسلام ح 4063]
سنن نسائی میں اسی مفہوم کی روایت ہے، امام ترمذی نے یہ روایت مختصراً بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”ھٰذا حدیث حسن صحیح“ (البروالصلۃ باب ماجاء فی الاحسان والعفو ح 2006)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَن أنعم الله عليه نعمةً فإن الله يحبّ أن يُري أثر نعمته على خلقه»
جسے اللہ اپنی نعمت عطا فرمائے تو اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی مخلوق پر اُس کی نعمت کا اثر نظر آئے۔
(مسند احمد 4/ 438 ح 19934، وسندہ صحیح)
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (ج 2 ص 498۔499)
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 498