897 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، عن ابن شهاب، عن ابن كعب بن مالك، عن ابيه، انه لما حضرته الوفاة، قالت له ام مبشر: اقرا علي مبشر السلام، فقال لها كعب: يا ام مبشر، اهكذا قال رسول الله صلي الله عليه وسلم؟، فقالت: لا ادري ضعفت فاستغفر الله، فقال كعب: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «ان نسمة المؤمن طائر خضر تعلق من ثمر الجنة» 897 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَتْ لَهُ أُمُّ مُبَشِّرٍ: اقْرَأْ عَلَي مُبَشِّرٍ السَّلَامَ، فَقَالَ لَهَا كَعْبٌ: يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَهَكَذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي ضَعُفْتُ فَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، فَقَالَ كَعْبٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ نَسَمَةَ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ خَضِرٌ تَعْلَقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ»
897- سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اپنے والد کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا، تو سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: آپ مبشر کو میری طرف سے سلام کہیے گا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے ام مبشر! کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے؟ تو اس خاتون نے عرض کی: مجھے نہیں معلوم میں بوڑھی ہوگئی ہوں، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں۔ تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مومن کی جان سبز پرندے کی شکل میں ہوتی ہے، جو جنت کے پھلوں کو کھاتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 820، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4657، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2072، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2211، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1641، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1449، 4271، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16017، 16018»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:897
فائدہ: جنت برحق ہے، اور اس کی نعمتیں برحق ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے تیار کی ہیں، سبز پرندوں کی شکل میں مومن کی روح ہوگی جہاں سے مرضی کھاتی پھرے گی، اور یہ حقیقت پر محمول ہے، دنیاوی سبز پرندوں کو مراد لینا غلط ہے، وہ تو جنتی پرندے ہوں گے، سبحان اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 896
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1449
´جانکنی کے وقت مریض کے پاس کیا دعا پڑھی جائے؟` عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے والد کعب رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا، تو ان کے پاس ام بشر بنت براء بن معرور (رضی اللہ عنہما) آئیں، اور کہنے لگیں: اے ابوعبدالرحمٰن! اگر فلاں سے آپ کی ملاقات ہو تو ان کو میرا سلام کہیں، کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام بشر! اللہ تمہیں بخشے، ہمیں اتنی فرصت کہاں ہو گی کہ ہم لوگوں کا سلام پہنچاتے پھریں، انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا: ”مومنوں کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی، اور جنت کے درختوں سے کھاتی چرتی ہوں گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1449]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ آئندہ آنے والی حدیث (4271) اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا موجودہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2) میت کو جنت میں اس کے درجے کے مطابق نیا جسم مل جاتا ہے۔
(3) جنت کی راحت اور جہنم کاعذاب مرنے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔
(4) ان معاملات کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ جو اس دنیا سے بالکل مختلف جہان ہے۔ اس کے حالات کو دنیا کے حالات کی روشنی میں سمجھنا ممکن نہیں۔ اس لئے جتنی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔ اس پر ایمان رکھنا چاہیے۔ اس کی کیفیت کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1449