886 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا إسماعيل بن امية، عن مزاحم بن ابي مزاحم، عن عبد العزيز بن عبد الله بن خالد بن اسيد، عن محرش الكعبي، قال: «اعتمر رسول الله صلي الله عليه وسلم من الجعرانة ليلا، فنظرت إلي ظهره كانه سبيكة فضة، واصبح كبائت» قال الحميدي:" وكان سفيان، يقول: فيه محرير الكعبي، فإن استفهمه احد، قال: مجرش، او مجرس، او محرس، ربما قال: ذا، وذا وكان ابدا يضطرب في الاسم"، قال الحميدي: «وهو محرش» 886 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، قَالَ: «اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجِعْرَانَةِ لَيْلًا، فَنَظَرْتُ إِلَي ظَهْرِهِ كَأَنَّهُ سَبِيكَةُ فِضَّةٍ، وَأَصْبَحَ كَبَائِتٍ» قَالَ الْحُمَيْدِيُّ:" وَكَانَ سُفْيَانُ، يَقُولُ: فِيهِ مُحْرِيرٌ الْكَعْبِيُّ، فَإِنِ اسْتَفْهَمَهُ أَحَدٌ، قَالَ: مُجَرِّشٌ، أَوْ مُجَرِّسٌ، أَوْ مُحْرِسٌ، رُبَّمَا قَالَ: ذَا، وَذَا وَكَانَ أَبَدًا يَضْطَرِبُ فِي الِاسْمِ"، قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: «وَهُوَ مُحَرِّشٌ»
886- سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جعرانہ“ سے رات کے وقت عمرہ کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی طرف دیکھا تو وہ چاندی کے ٹکڑے کی مانند تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ”جعرانہ“ میں موجود تھے یوں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات یہیں بسر کی ہے۔ امام حمید ی بیان کرتے ہیں: سفیان اس روایت میں بعض اوقات سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص ان سے اس بارے میں دریافت کرتا تو وہ یہ جواب دیتے تھے ان کا نام یا مجرش ہے یا محرش ہے یا مخرش ہے۔ اور بعض اوقات وہ یہ بھی کہتے تھے: یا یہ ہے یاوہ ہے۔ یعنی وہ ان کے نام کے بارے میں ہمیشہ اضطراب کا شکار رہتے تھے۔ امام حمید ی کہتے ہیں: ان کا نام ”محرش“ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2863، 2864، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3832، 3833، 4220، 4221، 4222، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1996، والترمذي فى «جامعه» برقم: 935، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1903، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8884، 8885، 8886، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15752، 15753»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:886
فائدہ: مکہ میں رہنے والے مستقل رہائشی اور غیر ملکی ملازمین وغیرہ اپنے گھروں سے ہی احرام باندھیں گے البتہ میقات کے اندر والے یا حرم میں عارضی رہائش اختیار کیے ہوؤں میں سے اگر کوئی احرام باندھنا چاہے تو اسے حرم سے باہر کسی میقات کے مقام پر جا کر احرام باندھنا پڑے گا۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےجعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 886
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1996
´عمرے کے احرام میں عورت کو حیض آ جائے پھر حج کا وقت آ جائے تو وہ عمرے کو چھوڑ کر حج کا تلبیہ پکارے، کیا اس پر عمرے کی قضاء لازم ہو گی؟` محرش کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں داخل ہوئے تو مسجد آئے اور وہاں اللہ نے جتنی چاہا نماز پڑھی، پھر احرام باندھا، پھر اپنی سواری پر جم کر بیٹھ گئے اور وادی سرف کی طرف بڑھے یہاں تک کہ مدینہ کے راستہ سے جا ملے، پھر آپ نے صبح مکہ میں اس طرح کی جیسے کوئی رات کو مکہ میں رہا ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1996]
1996. اردو حاشیہ: (فاصبح بمکۃ کبائت) اور مکہ میں صُبح کی۔گویا کہ آپ رات ہی سے یہیں تھے۔یہ جملہ کسی راوی کا وہم ہے۔جامع ترمذی سنن نسائی اور مسند احمد میں جو آیا ہے۔وہ صحیح تر ہے کہ آپ نے رات میں عمرہ کیا۔اور رات ہی کو جعرانہ واپس تشریف لے آئے۔گویا آپ نے رات یہیں گزاری تھی۔ اور اس بنا پر بعض اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین پرآپﷺ کا یہ عمرہ مخفی رہا۔(بزل المجہود) یہ حدیث باب سے اس طرح مطابقت رکھتی ہے۔کہ قضا یا نفلی عمرہ ادا کرن ےوالا تنعیم سے احرام باندھے یاجعرانہ سے یہی دو مقام قریب کے میقات ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1996