722 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، قال: اشتري ابن عمر من شريك لنواس إبلا هيما، فلما جاء نواس، قال لشريكه: ممن بعتها، فوصف له صفة ابن عمر، فقال: ويحك، ذلك ابن عمر، واتي نواس إلي ابن عمر، فقال: ان شريكي باعك إبلا هيما، وإنه لم يعرفك، قال: خذها إذا، فلما ذهب لاخذها، قال: «دعها رضينا بقضاء رسول الله صلي الله عليه وسلم لا عدوي» قال سفيان: قال عمرو: وكان نواس يجالس ابن عمر، وكان يضحكه، فقال يوما: وددت ان لي ابا قبيس ذهبا، فقال له ابن عمر: ما تصنع به؟ قال: «اموت عليه» ، فضحك ابن عمر722 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: اشْتَرَي ابْنُ عُمَرَ مِنْ شَرِيكٍ لَنَوَّاسٍ إِبِلًا هِيمًا، فَلَمَّا جَاءَ نَوَّاسٌ، قَالَ لِشَرِيكِهِ: مِمَّنْ بِعْتَهَا، فَوَصَفَ لَهُ صِفَةَ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: وَيْحَكَ، ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَتَي نَوَّاسٌ إِلَي ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: أَنَّ شَرِيكِي بَاعَكَ إِبِلًا هِيمًا، وَإِنَّهُ لَمْ يَعْرِفْكَ، قَالَ: خُذْهَا إِذَا، فَلَمَّا ذَهَبَ لِأَخْذِهَا، قَالَ: «دَعْهَا رَضِينَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوَي» قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَكَانَ نَوَّاسٌ يُجَالِسُ ابْنَ عُمَرَ، وَكَانَ يُضْحِكُهُ، فَقَالَ يَوْمًا: وَدِدْتُ أَنَّ لِي أَبَا قُبَيْسٍ ذَهَبًا، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: مَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: «أَمُوتُ عَلَيْهِ» ، فَضَحِكَ ابْنُ عُمَرَ
722- عمر وبن دینار بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نواس کے شراکت دار سے ایک ایسا اونٹ خریدا جسے شدید پیاس لگنے کی بیماری تھی۔ جب نو اس آئے، تو انہوں نے اپنے شراکت دار سے کہا: تم نے اسے کس کو فروخت کیا ہے، تو اس نے ان کے سامنے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا حلیہ بیان کیا، تو نواس بولے: تمہارا ستیاناس ہو وہ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ نواس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور بولے: میرے شراکت دارنے آپ کو ایک ایسا اونٹ فروخت کیا ہے، جسے شدید پیاس لگنے کی بیماری ہے، وہ آپ کو پہچانتا نہیں تھا۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے: تم اسے لے جاؤ۔ جب میں اسے لے کر جانے لگا، تو انہوں نے فرمایا: تم اسے رہنے دو! ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے راضی ہیں کہ عدویٰ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سفیان کہتے ہیں: عمروبن دینار نے یہ بات بیان کی ہے نواس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیٹھا کرتے تھے اور انہیں ہنسایا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے کہا: میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس ابوقبیس پہاڑ جتنا سونا ہوتا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم اس کے ساتھ کیا کرتے؟ تو نواس بولے: میں اس پر مرجاتا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہنسنے لگے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2099، 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2225، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3566، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3570، 3571، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3922، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2824 م 1، 2824 م 2، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 86، 1995، 3540، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10849، 10850، 14346، 16620، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4633 برقم: 4867 برقم: 5022»