610 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن وهب بن جابر، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «كفي بالمرء إثما ان يضيع من يعول» 610 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَي بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَعُولُ»
610- سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، جن لوگوں کو خوراک فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے، وہ انہیں ضائع کردے (یعنی ان کی ضرو ریات کا بند و بست نہ کرے)“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 996، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4240، 4241، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1692، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15796، 15875، 17896، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 6606»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:610
فائدہ: اس حدیث میں نان و نفقہ کی ذمہ داری ادا کرنے کا ذکر ہے کہ جو شخص اہل و عیال پر خرچ نہیں کرتا وہ مجرم ہے، اور یہ معلوم شے ہے کہ صدقہ کی افضل ترین صورت اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 610
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1692
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے ضائع کر دے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1692]
1692. اردو حاشیہ: یعنی اپنے بیوی بچے جن کے اخراجات اس کے زمے ہیں یا وہ افراد جو اس کے زیر کفالت ہوں۔مثلاً والدین یادیگر عزیز یا نوکر خادم اور اس کے زیر انتظام ادارے کے ملازمین جنھیں یہ تنخواہ دیتا ہو۔اس قسم کے متعلقین کو ان کے مالی حقوق نہ دینا یا کم دینا یا بلاوجہ تاخیر کر کے دینایا ان کو چھوڑ کر دوسروں پر صدقہ کرتے پھرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اور گناہ ہے۔انسانوں کے علاوہ زیر ملکیت جانوروں اور پرندوں کے حقوق مارنے پر بھی یہی وعید ہے۔اس معنی ومفہوم کے ساتھ ساتھ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے۔کہ انسان جس کی طرف سے اس کو رزق وخرچ مل رہا ہو اس کو ضائع کردے۔۔۔یعنی اگر وہ خدمت کا حقداار ہے۔تو اس کی خدمت نہ کرے۔مثلا ً بیوی کے لئے شوہر اور اولاد کےلئے باپ۔۔۔یا اس کا احسان مند نہ ہو۔ مثلا بھائی کے لئے بھائی یا خوامخواہ اس میں عیب جوئی کرتے رہنا۔کوئی تقصیر ہوجائے تو درگزر نہ کرنا وغیرہ کہ ان اسباب سے انسان کا وسیلہ رزق ختم ہوجائے یا الفت ومودت اور صلہ رحمی کےروابط ختم ہوجایئں۔ اور اسے ضائع کر بیٹھے تو یہ گناہ کی بات ہے۔رسول اللہ ﷺفدا امی وابی کے اس قسم کے ارشادات آپ کے صاحب جوامع الکلم ہونے کی دلیل ہیں۔ <عربی> (اللهم صل وبارك وسلم عليه ]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1692