607 - حدثنا الحميدي قال:، ثنا سفيان، وحدثناه ابن ابي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلي الله عليه وسلم، ولم يذكر العدلين607 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ:، ثنا سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَاهُ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْعَدْلَيْنِ
607-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم دوعادل راویوں کا تذکرہ نہیں ہے۔
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:607
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر اہل کتاب کی کتب سے بیان کرنا درست نہیں ہے، ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”اے مسلمانوں کی جماعت! تم اہل کتاب سے کس طرح سوال کرتے ہو، جبکہ تمہاری کتاب جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی خبروں میں سب سے تازہ ہے تم اسے اس حال میں پڑھتے ہو کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو لکھا تھا، اہل کتاب نے اسے بدل دیا ہے، اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تبدیلی کر دی ہے، اور انہوں نے کہا: کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ بہت تھوڑی قیمت حاصل کریں، تو کیا جو تمھارے پاس علم آیا ہے وہ تمھیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا نہیں اللہ کی قسم! ہم نے ان میں سے کسی آ دمی کو بھی تم سے اس کے متعلق سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو تم پر نازل کیا گیا ہے“۔ [صحيح البخاري:2688]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 607