546 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا الزهري، عن عبيد الله فلما كان في آخر زمان سفيان اثبت فيه ابن عباس قال: اتي النبي صلي الله عليه وسلم رجل منصرفه من احد فقال: يا رسول الله إني رايت ظلة تنطف سمنا وعسلا ورايت الناس يتكففون منه فالمستكثر منه والمستقل، ورايت سببا واصلا إلي السماء اخذت به فاعلاك الله ثم اخذ به رجل من بعدك فعلا، ثم آخر من بعده فعلا، ثم آخر من بعده فقطع به، ثم وصل له فعلا، فقال ابو بكر يا رسول الله دعني اعبرها، قال «اعبرها» قال اما الظلة فالإسلام، واما ينطف سمنا وعسلا والناس يتكففون منه فهو القرآن وحلاوته ولينه فالمستكثر منه والمستقل، واما السبب الواصل إلي السماء فهو ما انت عليه من الحق اخذت به فاعلاك الله، ثم آخر من بعده فيعلو، ثم آخر من بعده فينقطع به ثم يوصل له فيعلو يا رسول الله اصبت؟ قال: «اصبت بعضا واخطات بعضا» قال: اقسمت يا رسول الله قال: «لا تقسم يا ابا بكر» 546 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ فَلَمَّا كَانَ فِي آخِرِ زَمَانِ سُفْيَانَ أَثْبَتَ فِيهِ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَي النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُنْصَرَفَهُ مِنْ أُحُدٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَأَيْتُ ظُلَّةً تَنْطِفُ سَمْنًا وَعَسَلًا وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهُ فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنْهُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا إِلَي السَّمَاءِ أَخَذْتَ بِهِ فَأَعَلَاكَ اللَّهُ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَعَلَا، ثُمَّ آخَرُ مِنْ بَعْدِهِ فَعَلَا، ثُمَّ آخَرُ مِنَ بَعْدِهِ فَقُطِعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَعْبُرْهَا، قَالَ «اعْبُرْهَا» قَالَ أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ، وَأَمَّا يَنْطِفُ سَمْنًا وَعَسَلًا وَالنَّاسُ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهُ فَهُوَ الْقُرْآنُ وَحَلَاوَتُهُ وَلِينُهُ فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنْهُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ إِلَي السَّمَاءِ فَهُوَ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ أَخَذْتَ بِهِ فَأَعَلَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ آخَرُ مِنْ بَعْدِهِ فَيَعْلُو، ثُمَّ آخَرُ مِنْ بَعْدِهِ فَيَنْقَطِعُ بِهِ ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَبْتُ؟ قَالَ: «أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا» قَالَ: أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «لَا تُقْسِمُ يَا أَبَا بَكْرٍ»
546- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ احد سے واپس تشریف لارہے تھے، تو ایک صاحب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! میں نے ایک بادل دیکھا ہے، جس میں سے گھی اور شہد کی بارش ہورہی تھی، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اسے ہتھیلیوں میں حاصل کررہے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ زیادہ حاصل کررہے تھے، کوئی کم حاصل کر رہا تھا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف جاتی ہوئی ایک رسی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑا اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر لے گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک صاحب نے اسے پکڑا تو وہ بھی اوپر چلے گئے، پھر ان کے بعد ایک اور صاحب نے پکڑا تو وہ بھی اوپر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد ایک اور صاحب نے پکڑا مگر وہ رسی ٹوٹ گئی پھر اسے ملا دیا گیا تو وہ بھی اوپر چلے گئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی تعبیر بیان کروں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی تعبیر بیان کرو! انہوں نے عرض کیا: بادل سے مراد اسلام ہے، اور اس سے جو گھی اور شہد برس رہا ہے اور لگ اسے ہتھیلیوں میں حاصل کررہے ہیں، اس سے مراد قرآن، اس کی تلاوت اور اس کی نرمی ہے، تو کوئی اسے زیادہ حاصل کررہا ہے اور کوئی کم حاصل کررہا ہے۔ جہاں تک آسمان پر جانے والی رسی کا تعلق ہے، تو اس سے مراد وہ حق ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گامزن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلندی عطا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑ لے گا، تو وہ اس کے ذریعے بلندی حاصل کرلے گا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا، تو وہ بھی بلندی حاصل کرلے گا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا، تو یہ منقطع ہوجائے گی، لیکن پھر اس رسی کو اس کے لئے ملادیا جائے گا، تو وہ بھی بلندی اختیار کرے گا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا میں نے ٹھیک تعبیر بیان کی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کچھ ٹھیک بیان کی ہے اور کچھ اس میں غلطی ہے۔“ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دیتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم ”قسم نہ دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7000، 7046، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2269، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 111، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7593، 7594، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3267، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2202، 2389، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3918، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19945، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1919، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2565، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31121»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:546
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خوابوں کی تعبیر کے ماہر تھے، ان کی کس قدر فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں خواب کی تعبیر بیان کی، نیز اس میں خلافت کا بھی بیان ہے کہ پہلے اور دوسرے خلیفہ کا نظام مضبوط ہوگا، تیسرے کی خلافت میں بعض فتنے وفساد ظاہر ہوں گے لیکن چوتھے خلیفہ کی موجودگی میں وہ فتنے وفسادختم ہوں گے، اور ہر لحاظ سے کامیابی ملے گی۔ خواب کی تعبیر کے متعلق ضروری بات ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ ”خواب کی تعبیر پہلے تعبیر کرنے والے کی تعبیر سے پوری ہو جاتی ہے۔“[سنن ابن ماجه: 3915] یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں یزید رقاشی ضعیف ہے اور اعمش مدلس ہے اور عن سے بیان کر رہا ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ اگر پہلی تعبیر کرنے والا غلط تعبیر بتا دے تو اس کی تعبیر سے کچھ نہ ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ [صـحـيـح البخارى قبل ح: 7046] نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی غلطی کو بیان نہیں کیا، ہمیں بھی اس غلطی کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 546
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3267
´کیا لفظ قسم بھی «يمين»(حلف) میں داخل ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دلائی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”قسم مت دلاؤ۔“[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3267]
فوائد ومسائل: علامہ خطابی فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کو محض یوں کہہ دے۔ کہ تجھے قسم ہے یہ قسم نہیں۔ یوں کہے کہ تجھے اللہ کی قسم ہے۔ تو یہ قسم ہوگی۔ اوراس کے مطابق عمل کرنالازم ہوگا۔ لیکن اگر کوئی پوری نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3267