497 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو بن دينار قال: اخبرني عطاء بن ابي رباح، عن ابن عباس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: «إذا اكل احدكم فلا يمسح يديه حتي يلعقها او يلعقها» قال سفيان: فقال له عمرو بن قيس: يا ابا محمد إنما حدثناه عطاء عن جابر فقال عمرو: والله لقد سمعته من عطاء يحدثه عن ابن عباس قبل ان يقدم علينا جابر مكة قال سفيان: وإنما لقي عمرو وعطاء إن شاء الله تعالي جابرا في سنة جاور فيها497 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَمْسَحْ يَدَيْهِ حَتَّي يَلْعَقَهَا أَوْ يُلْعِقَهَا» قَالَ سُفْيَانُ: فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّمَا حَدَّثَنَاهُ عَطَاءٌ عَنْ جَابِرٍ فَقَالَ عَمْرٌو: وَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ عَطَاءٍ يُحَدِّثُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ عَلَيْنَا جَابِرٌ مَكَّةَ قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنَّمَا لَقِيَ عَمْرٌو وَعَطَاءٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَي جَابِرًا فِي سَنَةٍ جَاوَرَ فِيهَا
497- عطاء بن ابی رباح سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب کوئی شخص کچھ کھائے تو اپنا ہاتھ (کپڑے یا کسی اور چیز کے ساتھ) اس وقت تک نہ پونچھے جب تک وہ اسے چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے سے چٹوا نہ لے۔“ سفیان کہتے ہیں: عمرو نے ان سے کہا: اے ابومحمد! یہ روایت عطاء نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے، تو عمرو بولے: اللہ کی قسم! میں نے تو یہ روایت عطاء کی زبانی سنی ہے، جسے انہوں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کیا تھا، اور یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ہمارے ہاں مکہ آنے سے پہلے کی بات ہے۔ سفیان کہتے ہیں: عمرو بن قیس اور عطاء کی ملاقات سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اس سال ہوئی تھی، جس سال سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہائش اختیار کی تھی (یا وہاں اعتکاف کیا تھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5456، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2031، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6744، 6745، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3847، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2069، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14730، 14731، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1949، برقم: 2716، برقم: 3296، برقم: 3568، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2503»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:497
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانا کھا کر ہاتھوں کو فوراً دھونا نہیں چاہیے اور نہ ہی پونچھنے چاہئیں، بلکہ ان کو چاٹ لینا چاہیے، اللہ تعالیٰ زیادہ جانتے ہیں کہ اس نے کھانے کے کس ٹکڑے میں زیادہ برکت رکھی ہے، برکت کی صراحت صحیح مسلم: 5300 (2033) میں ہے: انگلیوں کو چاٹ لینے کے بعد دھونا رومال، ٹشو پیپر سے صاف کرنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 497
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1241
´کھانا ختم کرنے پر ہاتھ چاٹنے کی تاکید` «وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا اكل احدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها او يلعقها . متفق عليه» ”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے۔“[بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1241]
فوائد:
➊ «لا يمسح يده» ہاتھ صاف کرنے سے مراد رومال یا تولئے کے ساتھ ہاتھ صاف کرنا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولا يمسح يده بالمنديل حتى يلعق أصابعة» ”اپنا ہاتھ تولئے کے ساتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹے۔“[الأشربة 134]
شروع ایام میں صحابہ کرام کے پاس تولئے نہیں ہوتے تھے آگ سے تیار شدہ کھانا بھی کم ہی ملتا تھا ان دنوں میں وہ انگلیاں چاٹنے کے بعد انہیں اپنی ہتھیلیوں، کلائیوں اور پاؤں کے ساتھ ہی صاف کر لیتے تھے۔ اور (دوبارہ) وضوء کئے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے۔ [بخاري عن جابر 5457]
➋ ہاتھ چاٹنے کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے۔ «فائه لا يدري فى أى طعامه تكون البركة»[مسلم عن جابر /الأشربة 35] کہ کھانے والے کو معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کون سے حصے میں برکت ہے۔
➌ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ صاف کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر لقمہ گر پڑے تو اٹھا کر صاف کر کے کھا لے شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ [مسلم الاشربة: 137]
➍ برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ہضم ہو جائے، پوری طرح جزو بدن بنے، کسی بیماری کا باعث نہ بنے، اللہ کی اطاعت میں مددگار بنے۔ «والله اعلم»[نووي]
برکت میں یہ بھی شامل ہے کہ اس سے بھوک کا احساس مٹ جائے کیونکہ بعض اوقات آدمی بہت سا کھانا کھاتا ہے اس کا پیٹ بھر جاتا ہے مگر بھوک نہیں مٹتی، حرص ختم نہیں ہوتی بلکہ کھاتا ہی چلا جاتا ہے اور آخر کار وہ کھانا اس کے لئے بوجھ اور بیماری کا باعث بن جاتا ہے اور بعض اوقات چند لقموں کے بعد ہی طبیعت سیر ہو جاتی ہے اور اسے بہترین فرحت کا احساس ہوتا ہے یہ اس برکت کا اثر ہے جو کھانے کے کسی لقمے کے ضمن میں اسے حاصل ہو گئی۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد ہاتھ دھونا ضروری نہیں صرف پونچھ لینا ہی کافی ہے مزید دیکھئے اس حدیث کا فائدہ نمبر 1۔
➏ ”اپنا ہاتھ خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے“ یعنی جو اس کا ہاتھ چاٹنے سے کراہت محسوس نہ کرتا ہو مثلاً بیوی، بچہ یا بھائی وغیرہ اگر بکری یا گائے کو چٹا دے تب بھی درست ہے کہ برکت ضائع تو نہ ہوئی۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 38
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1241
´ادب کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ چاٹنے یا چٹوانے سے پہلے (رومال وغیرہ سے) صاف نہ کرے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1241»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأطعمة، باب لعق الأصبابع ومصها قبل أن تمسح بالمنديل، حديث:5456، ومسلم، الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع والقصعة...، حديث:2031.»
تشریح: 1. اس حدیث میں کھانا تناول کرنے کے آداب میں سے ایک ادب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ رومال وغیرہ سے صاف کرنے سے پہلے انگلیوں کو اپنی زبان سے چاٹ کر یا دوسرے کسی سے چٹوا کر صاف کرنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ہاتھ پر لگے ہوئے کھانے ہی میں برکت ہو۔ 2.کھانے کے دوران میں ہاتھوں کو رومال وغیرہ سے صاف کرتے رہنا یا انگلیوں کو چاٹنے سے پہلے صاف کرنا درست نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1241
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3847
´رومال کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک رومال سے نہ پونچھے جب تک کہ اسے خود چاٹ نہ لے یا کسی کو چٹا نہ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3847]
فوائد ومسائل: 1۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی نفاست طبع کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کھانا کھاتے ہوئے پانچوں انگلیوں کی بجائےتین یعنی ایک انگوٹھا اور دو انگلیوں کو استعمال فرماتے۔ (دیکھئے۔ حدیث 3848) طعام کھانے کےلئے ہے اور جو انگلیوں پر لگا رہ جائے۔ اسے ضائع کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کا کھا لینا ہی مناسب ترین ہے۔ خاندان میں محبت اور اپنایئت کے جو رشتےہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے گھر کے افراد ایک دوسرے کا بچہ ہوا کھانا کھاتے ہیں۔ جو کہ انتہائی پیارا اور پسندیدہ عمل ہے۔ نیز اگر کھانا کھاتے ہوئے سالن اگر انگلیوں کو لگ جائے تو وہ اپنے بچوں کو یا اپنی بیوی کو یا دیگرافراد کو چٹوا دے تو یہ عمل جائز اور مباح ہے۔
2۔ انگلیاں چاٹ کر یا چٹوا کر رومال سے ہاتھ صاف کر لینا جائز ہے۔ اور شرعا یہ ضروری نہیں کہ ہاتھ فوری طور پر پانی ہی سے دھوئے، جایئں البتہ سونے سے پہلے دھولینا زیادہ بہتر ہے۔ دیکھئے۔ حدیث 3852)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3847
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5294
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم میں سے کوئی ایک کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ (انگلیاں) چاٹے یا چٹائے بغیر اپنا ہاتھ صاف نہ کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5294]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان جب کھانا کھاتا ہے تو اس کا کچھ حصہ انسان کے ہاتھوں، انگلیوں اور برتن کے ساتھ لگ جاتا ہے اور انسان اس سے بے خبر ہے کہ کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے، اس لیے آپ نے ہاتھ اور برتن کو چاٹنے اور اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ان کو دھونے اور صاف کرنے کی ترغیب دی اور انسان کے منہ کے لعاب سے جس اچھے طریقہ سے انگلیاں صاف ہوتی ہیں، ٹشو پیپر سے اس طرح صفائی حاصل نہیں ہوتی، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھانے کے کسی معمولی سے جز کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے، لیکن آج ہم غیروں کی تقلید میں اسلام کے اس سنہری اصول پر عمل کرنے کی بجائے ٹشو پیپروں کو بطور فیشن استعمال کرتے ہیں اور انگلیوں اور برتن کو صاف کرنا گنوار پن اور حرص و بخل تصور کرتے ہیں اور اپنی انگلی اپنے کسی عزیز بیوی بچوں کو بھی چٹا سکتا ہے، کیونکہ وہ اس کو ناپسند نہیں کریں گے اور انہیں اس اصول کا بھی پتہ چل جائے گا اور بقول بعض یہاں او تنويع کے لیے یعنی یہ کر لو یا نہ کرو، نہیں ہے بلکہ شک کے لیے ہے کہ آپ نے یہ لفظ کہا یا یہ لفظ بولا، اس صورت میں معنی ہو گا، اپنے منہ کو چٹوائے، دونوں لفظوں کا مقصد ایک ہی ہو گا کہ وہ خود چاٹے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5294
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5456
5456. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ہاتھ صاف کرنے سے پہلے اسے خود چاٹے یا کسی اور کو چٹا دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5456]
حدیث حاشیہ: یہاں رومال سے مراد کپڑا ہے جو کھانے کے بعد ہاتھ چکنائی دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ نے انگلیاں چاٹ کر اس رومال سے ہاتھ صاف کرنے کا حکم دیا۔ اگر چہ حدیث میں صاف طور پر لفظ رومال نہیں ہے مگر حضرت امام نے حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جسے مسلم نے نکالاہے۔ جس کے الفاظ ہیں کہ ''فلا یَمسَح یَدَہ بِالمندِیلِ'' یعنی ہاتھوں کو رومال سے پونچھنے سے پہلے چاٹ کر صاف کر لے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5456
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5456
5456. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ہاتھ صاف کرنے سے پہلے اسے خود چاٹے یا کسی اور کو چٹا دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5456]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں اگرچہ انگلیوں کو چاٹنے یا انہیں چوسنے کی صراحت نہیں ہے اور نہ اس میں رومال ہی کا ذکر ہے، البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جب تک اپنی انگلیوں کو چاٹ نہ لے، اپنے ہاتھ کو رومال سے صاف نہ کرے، وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کون سے حصے میں برکت رکھی گئی ہے۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5300 (2033) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کھانے سے فارغ ہو تو ہاتھوں کو صاف کرنے سے پہلے انگلیوں کو چوس لے۔ (المصنف لابن أبي شیبة، باب في لحق الأصابع، رقم: 24437)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اس وقت تک رومال یا ٹشو پیپر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک انگلیوں کو چاٹ نہ لیا جائے، مبادا انگلیوں کے ساتھ لگا ہوا کھانا ضائع کر کے کھانے کی برکت ضائع ہو جائے۔ ہمیں چاہیے کہ عام دعوتوں میں اس سنت کو زندہ کریں اور انگلیاں چاٹ کر صاف کرنے میں حقارت یا نفرت محسوس نہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5456