وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔
494 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمار الدهني، ويحيي بن عبد الله الجابر انهما سمعا سالم بن ابي الجعد يقول: جاء رجل إلي ابن عباس فساله عن رجل قتل مؤمنا متعمدا ثم تاب وآمن وعمل صالحا ثم اهتدي فقال ابن عباس: واني له الهدي سمعت نبيكم صلي الله عليه وسلم يقول:" يؤتي بالمقتول يوم القيامة متعلقا بالقاتل يشخب اوداجه دما حتي ينتهي به إلي العرش فيقول: رب سل هذا فيم قتلني؟" قال ابن عباس والله لقد انزلها الله علي نبيه صلي الله عليه وسلم ثم ما نسخها منذ انزلها494 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمَّارٌ الدُّهْنِيُّ، وَيَحْيَي بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجَابِرُ أَنَّهُمَا سَمِعَا سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَي ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ثُمَّ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَي فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَّي لَهُ الْهُدَي سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يُؤْتَي بِالْمَقْتُولِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ يَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا حَتَّي يَنْتَهِيَ بِهِ إِلَي الْعَرْشِ فَيَقُولُ: رَبَّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي؟" قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَلَي نَبِيِّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ مَا نَسَخَهَا مُنْذُ أَنْزَلَهَا
494- سالم بن ابوجعد بیان کرتے ہیں: ایک شخص سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا، جو کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کردیتا ہے، پھر وہ توبہ کرکے ایمان لے آتا ہے، وہ نیک عمل کرتا ہے، پھر وہ ہدایت حاصل کرلیتا ہے، تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اسے ہدایت کہاں سے مل سکتی ہے؟ میں نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن مقتول کو ایسی حالت میں لایا جائے گا کہ وہ قاتل کے ساتھ ہوگا، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ اسے ساتھ لے کر عرش کے پاس آئے گا اور عرض کرے گا: اے میرے پرودگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟۔“ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی تھی پر جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے کسی چیز نے اسے منسوخ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3855، 4590، 4762، 4763، 4764، 4765، 4766، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 3023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4010، 4011، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3448، 3449، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4273، برقم: 4275، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3029، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2621، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1966، برقم: 2175، برقم: 2727، برقم: 3513»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:494
فائدہ: ① بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کر نے والے کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ سیدنا ابن عباس رضى الله عنهما اس کے قائل نہیں کیونکہ اس کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک مخصوص آیت اتر چکی ہے که: ﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾(النساء: 93) ”اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے“۔ آیت کے ظاہر الفاظ سیدنا ابن عباس رضى الله عنهما کی تائید کرتے ہیں، نیز یہ حقوق العباد میں سے سب سے بڑا حق ہے، لہٰذا مقتول کی رضا مندی کے بغیر معافی کیسی؟ مگر دیگر اہل علم اس کی توبہ کے بھی قائل ہیں۔ استدلال سورۂ فرقان کی آیت سے ہے: ﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾(الفرقان: 70) ”مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے اور ان میں قتل بھی مذکور ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مؤقف یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے، یعنی جو شخص کفر کی حالت میں قتل کر بیٹھے، پھر توبہ کرے اور اسلام قبول کر لے تو اسلام کی برکت سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے جن میں قتل بھی شامل ہے، مگر ایمان لانے کے بعد کسی بے گناہ مومن کو قصداً قتل کرے تو اس کے لیے سورۂ نساء والی آیت ہے جس میں توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر سیدنا ابن عباس رضى الله عنهما اس مسئلے میں اکیلے ہیں۔ جمہور اہل علم توبہ کے قائل ہیں کیونکہ آخر یہ ہے تو کبیرہ گناہ ہی، کفر تو نہیں، لہٰذا قابل معافی ہے۔ ﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾(النساء: 48) باقی رہا اس کا حقوق العباد سے متعلق ہونا، تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو معاف فرمانا چاہے، تو اس کے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے، مثلاً: اسے اپنے فضل سے جنت میں بھیج کر خوش کر دے اور وہ معاف کر دے وغیرہ۔ ② ”منسوخ فرمادیا“ اس آیت سے مراد سورۂ فرقان والی آیت ہے جس میں توبہ کا ذکر ہے۔ اس کا منسوخ ہونا اس لیے قرین قیاس ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور دوسری آیت سورہ نساء والی مدنی ہے مگر مندرجہ ذیل تطبیق کی صورت میں کسی کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ اعلم (نیز دیکھیے، حدیث: 3989، اور حدیث: 4013)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 494