406 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا يحيي بن سعيد قال: اخبرني بشير بن يسار مولي ابن حارثة قال: سمعت سهل بن ابي حثمة يقول: «نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيع الثمر بالتمر إلا انه رخص في العرية ان يباع بخرصها ياكلها اهلها رطبا» 406 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَي ابْنِ حَارِثَةَ قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ يَقُولُ: «نَهَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرِيَّةِ أَنْ يُبَاعَ بِخَرْصِهَا يَأْكُلُهَا أَهْلُهَا رُطَبًا»
406- سیدنا سہل بن ابوحثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے عوض پھل کی فروخت کرنے سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عریہ“ کی رخصت دی ہے کہ اسے اندازے کے تحت فروخت کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس کے مالک (یا گھر والے) تازہ کھجوریں کھا سکیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح: وأخرجه البخاري في «البيوع» برقم: 2191،2383، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1540، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 5002،5198»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:406
فائدہ: یہاں عریہ کی صورت یہ ہے کہ باغ والے نے کسی فقیر کو ایک درخت کے پھل خیرات دیے۔ یہ فقیر اتنے روز تک صبر نہیں کر سکتا کہ موسم بھر توڑتا رہے کھا تا رہے، دوسرے فقیر کے پاس خشک چوہارے تھے اسے اور اس کے بچوں کو تر کھجور میں کھانے کا شوق تھا، چھوہارے والا فقیر چھو ہارے کے عوض یہ کھجور میں خرید لے، اب درخت والے کو اکٹھے چھوہارے مل گئے اور چھوہارے والے کو تر کھجور میں۔ اگر چہ یہ بیع مزابنہ ہوئی مگر فقراء کی حاجت روائی کے لیے جائز رکھی گئی۔ مرقاۃ میں ہے کہ جب بیع مزابنہ سے منع کیا گیا تو فقراء صحابہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم لوگ تر کھجوروں سے محروم ہو جائیں گے تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عریہ کی اجازت دی۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ (جس کی تعریف اوپر بیان ہوئی) میں اس بات کی رخصت دی کہ ایک گھر کے لوگ اندازے سے خشک کھجور دیں اور اس کے بدلے درخت پر موجود تر کھجور کھانے کو خرید لیں۔ عرایا کی بیع کتنی مقدار تک جائز ہے۔ [صـحـيـح مـسـلـم: 919] سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے عرایا میں اندازے سے بیع کی اجازت دی بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہو یا پانچ وسق تک (راوی حدیث داؤد کو شک ہے کہ کیا کہا: پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم)۔ [صحيح مسلم: 920]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 406
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2191
2191. حضرت سہیل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خشک کھجور کے عوض درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کی بیع سے منع فرمایا، البتہ بیع عریہ کی آپ نے رخصت دی کہ اسے اندازہ کرکے فروخت کیاجاسکتا ہے تاکہ عریہ والے تازہ کھجور کھائیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے کبھی اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا کہ آپ ﷺ نے عریہ کی اجازت دی کہ اندازہ کرکے اسے فروخت کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کے مالک خود انھیں رطب کی شکل میں کھاتے رہیں۔ ان دونوں روایات کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے کہا میں نے (اپنے شیخ) یحییٰ بن سعید سے عرض کیا، حالانکہ میں اس وقت کم سن بچہ تھا کہ اہل مکہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ انھوں نے جواب دیا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ (کیونکہ وہ تاجر پیشہ لوگ تھے، باغبانی کا پیشہ نہیں کرتے تھے۔) میں نے عرض کیا: وہ حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے تھے تو وہ خاموش ہوگئے۔ سفیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2191]
حدیث حاشیہ: تو حدیث آخر مدینہ والوں ہی پر آکر ٹھہری، حاصل یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور مکہ والوں کی روایت میں کسی قدر اختلاف ہے۔ یحییٰ بن سعید نے عرایا کی رخصت میں انداز کرنے کی اور عرایا والوں کی تازہ کھجور کھانے کی قید لگائی ہے۔ اور مکہ والوں نے اپنی روایات میں یہ قید بیان نہیں کی۔ بلکہ مطلق عریہ کو جائز رکھا۔ خیر اندازہ کرنے کی قید تو ایک حافظ نے بیان کی ہے اس کا قبول کرنا واجب ہے لیکن کھانے کی قید محض واقعی ہے نہ کہ احترازی (قسطلانی) سفیان بن عیینہ سے ملنے والا کون تھا حافظ کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام معلوم نہیں ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2191
2191. حضرت سہیل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خشک کھجور کے عوض درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کی بیع سے منع فرمایا، البتہ بیع عریہ کی آپ نے رخصت دی کہ اسے اندازہ کرکے فروخت کیاجاسکتا ہے تاکہ عریہ والے تازہ کھجور کھائیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے کبھی اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا کہ آپ ﷺ نے عریہ کی اجازت دی کہ اندازہ کرکے اسے فروخت کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کے مالک خود انھیں رطب کی شکل میں کھاتے رہیں۔ ان دونوں روایات کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے کہا میں نے (اپنے شیخ) یحییٰ بن سعید سے عرض کیا، حالانکہ میں اس وقت کم سن بچہ تھا کہ اہل مکہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ انھوں نے جواب دیا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ (کیونکہ وہ تاجر پیشہ لوگ تھے، باغبانی کا پیشہ نہیں کرتے تھے۔) میں نے عرض کیا: وہ حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے تھے تو وہ خاموش ہوگئے۔ سفیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2191]
حدیث حاشیہ: اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور اہل مکہ کی روایت میں تھوڑا سااختلاف ہے۔ یحییٰ بن سعید کی روایت میں بیع عرایا کے جواز کے لیے دو قیود ہیں: ٭ اندازے سے فروخت کرنا۔ ٭ تازہ کھجوریں کھانے کے لیے فروخت کرنا۔ جبکہ اہل مکہ اپنی روایت میں ان قیود کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ وہ مطلق طور پر عرایا کے جواز کا رجحان رکھتے ہیں۔ اندازہ کرکے فروخت کرنے کی صراحت تو ایک ثقہ راوی نے کی ہے، اس لیے اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، البتہ تازہ کھجور کھانے کا ذکر محض اتفاقی ہے احترازی نہیں اگرچہ بعض حضرات اسے بطور شرط بیان کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔ (فتح الباري: 492/4) والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2191