38 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عبد الله بن ابي نجيح، عن ابيه قال: اخبرني من سمع عليا رضي الله عنه يقول: اردت ان اخطب إلي رسول الله صلي الله عليه وسلم ابنته ثم ذكرت انه لا شيء لي فذكرت عائدته وفضله فخطبتها فقال لي: «هل عندك شيء تعطيها إياه؟» قلت: لا، قال «فاين درعك الحطمية التي اعطيتكها يوم كذا وكذا؟» قلت: هي عندي، قال «فات بها» قال: فجئت بها فاعطيته إياها فزوجنيها فلما ادخلها علي قال: «لا تحدثا شيئا حتي آتيكما» فجاءنا وعلينا كساء او قطيفة، فلما رايناه تخشخشنا فقال: «مكانكما» فدعا بإناء فيه ماء فدعا فيه ثم رشه علينا فقلت: يا رسول الله صلي الله عليه وسلم اهي احب إليك ام انا؟ قال: «هي احب إلي منك، وانت اعز علي منها» قال ابو علي الصواف: ثنا إبراهيم بن عبد الله البصري، ثنا إبراهيم بن بشار الرمادي، ثنا سفيان بن عيينة، عن ابن ابي نجيح، عن ابيه قال: اخبرني من سمع علي بن ابي طالب علي منبر الكوفة فذكر معناه38 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: أَرَدْتُ أَنَ أَخْطُبَ إِلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ ثُمَّ ذَكَرْتُ أَنَّهُ لَا شَيْءَ لِي فَذَكَرْتُ عَائِدَتَهُ وَفَضْلَهُ فَخَطَبْتُهَا فَقَالَ لِي: «هَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ تُعْطِيهَا إِيَّاهُ؟» قُلْتُ: لَا، قَالَ «فَأَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ الَّتِي أَعْطَيْتُكَهَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا؟» قُلْتُ: هِيَ عِنْدِي، قَالَ «فَأْتِ بِهَا» قَالَ: فَجِئْتُ بِهَا فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا فَزَوَّجَنِيهَا فَلَمَّا أَدْخَلَهَا عَلَيَّ قَالَ: «لَا تُحْدِثَا شَيْئًا حَتَّي آتِيكُمَا» فَجَاءَنَا وَعَلَيْنَا كِسَاءٌ أَوْ قَطِيفَةٌ، فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ تَخَشْخَشْنَا فَقَالَ: «مَكَانَكُمَا» فَدَعَا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ فَدَعَا فِيهِ ثُمَّ رَشَّهُ عَلَيْنَا فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهِيَ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ أَنَا؟ قَالَ: «هِيَ أَحَبُّ إِلِيَّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَعَزُّ عَلَيَّ مِنْهَا» قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الصَّوَّافُ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَصْرِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ الرَّمَادِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَي مِنْبَرِ الْكُوفَةِ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ
38- عبداللہ بن ابویجیح اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: مجے ان صاحب نے بتایا جنہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے یہ سنا، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے یہ ارادہ کیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لئے نکاح کا پیغام بھجواؤں پھر مجھے یاد آیا، میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں۔ پھر مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کا خیال آیا، تو میں نے (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے) نکاح کا پیغام دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے، جسے تم (مہر کے طور پر) اسے دو؟ میں نے عرض کی: جی نہیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری حطمیہ زرہ کہاں ہے؟ جو میں نے فلاں موقع پر تمہیں دی تھی؟ میں نے عرض کیا: وہ مرے پاس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے ہی لے آؤ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہ لے کر آیا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ زرہ دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کردی۔ جب ان کی رخصتی ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک میں تم دونوں کے پاس نہیں آتا اس وقت تک تم دونوں کوئی بات چیت نہ کرنا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے ایک چادر (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ایک کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ جب ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ہم اس میں داخل ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اپنی جگہ پر رہو! پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی موجود تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دعا مانگی (یعنی اس پر کچھ پڑھ کر دم کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہم پر چھڑک دیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ (یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں، یا میں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے نزدیک تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک اس سے زیادہ معزز ہو۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں راوی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے منبر پر یہ بات بیان کرتے ہوئے سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أحمد 80/1، والبيهقي فى الصداق 234/7 وابوداود:2126»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:38
فائدہ: اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شادی کا ذکر ہے کہ کس سادگی کے ساتھ ان کی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی ہوئی، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حق مہر جتنا میسر ہو وہی مقرر کرنا چاہیے۔موجودہ دور میں شادیاں کس طرح قرآن وسنت کی سنہری تعلیمات کے خلاف ہورہی ہیں، ہم کوئی بھی رسم و رواج چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔کاش مسلمان نبی کریم ﷺ کی زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں، اس میں امن ہی امن ہے۔ جب جنت کی سردار خاتون امام الانبیاء کی لخت جگر کی شادی اتنی سادگی سے ہوسکتی ہے تو ہماری بیٹیوں کی شادیاں اتنی شان وشوکت، فضول خرچی، ہندوانہ رسم ورواج کے ساتھ کیوں ہوں؟ افسوس کہ آج کے مسلمان نے شادیاں مہنگی اور زنا کو آسان کر دیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 38