333. حضرت عبداللہ بن شداد ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ اور اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ سے سنا کہ وہ حائضہ ہوتیں اور نماز نہ پڑھتیں تو بھی رسول اللہ ﷺ کی سجدہ گاہ کے پاس لیٹی رہتیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے رہتے، جب سجدہ کرتے تو آپ کا کچھ کپڑا ان کے جسم سے لگ جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:333]
حدیث حاشیہ: 1۔
صحیح بخاری ؒ کے بعض نسخوں میں یہاں باب کا لفظ نہیں ہے۔
اس صورت میں یہ حدیث سابقہ عنوان میں داخل ہے۔
امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح نفاس والی عورت پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔
اسی طرح اگرعورت دوران حیض میں فوت ہوجائے تو اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔
کیونکہ حیض ونفاس دونوں کا ایک ہی حکم ہے، لہذا جس طرح نفاس والی عورت کا خون مرنے سے بند ہوجاتا ہے اور غسل دینے سے وہ پاک ہوجاتی ہے، اسی طرح حیض والی عورت کا خون بھی مرنے کے بعد بند ہوجاتا ہے اور غسل دینے سے وہ پاک ہوجائے گی اور اس کا جنازہ پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔
اگرباب کا لفظ موجود ہے تو یہ سابقہ عنوان کی ایک فصل شمار ہوگا۔
سیاق وسباق کی مناسبت کے پیش نظر اس پر درج ذیل عنوان قائم کیے جاسکتے ہیں۔
(الصلاة بقرب الحائض، إذا مس ثوب المصلي بدن الحائض فلاضير فيه، باب طهارة عين الحائض) 2۔
خمره:
اس چھوٹے مصلے کو کہتے ہیں جو کھجور کے پتوں سے دھاگے کے ذریعے سے بنایا جاتا ہے اور بڑی چٹائی کو عربی میں حصیر کہتے ہیں۔
چھوٹی چٹائی کو خمرہ کہنے کی ویہ یہ ہے کہ اس کے دھاگے پتوں میں چھپے ہوتے ہیں، نیز زمین کی گرمی اور سردی سے چہرہ اور ہاتھ محفوظ رہتے ہیں۔
(فتح الباري: 558/1) اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام کا استنباط ہوتا ہے:
حائضہ نجس نہیں۔
اگرایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں اپنا کپڑا حضرت میمونہ ؓ پر نہ گرنے دیتے۔
یہی حکم نفاس والی عورت کا ہے۔
۔
حائضہ نماز تو نہیں پڑھتی، البتہ نمازی کے آگے اپنا بستر بچھا کر لیٹ سکتی ہے۔
۔
حائضہ عورت کے پاس نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں، اسی طرح اس کے بستر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
۔
کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر نماز پڑھنا تواضع کی علامت ہے۔
(عمدة القاري: 184/3)
۔
اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے براعة الاختتام کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔
بعض روایات میں افتراش الجنازة کے الفاظ بھی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت میمونہ ؓ آپ کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی رہتیں۔
اس سے کتاب الحیض کے اختتام کی طرف بھی اشارہ ہے اور امام بخاری نے قاری کو آخرت یاد دلانے کا اہتمام بھی کیاہے۔
واللہ أعلم۔
وعلمه أتم۔
عنوان کی مناسبت سے سرزمین حجاز کے مایہ ناز عالم دین شیخ محمد بن صالح العثمین ؒ کے ایک رسالے سے حیض کے احکام کو خلاصہ پیش کیا جاتاہے۔
حیض کی تعریف:
لغوی طور پر حیض کے معنی کسی چیز کاجاری ہونا اور بہہ پڑنا ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں وہ خون جو طبعی طور پر عورت کی شرمگاہ سے ایک وقت مقرر پر کسی بیماری، زخم، اسقاط، یاولادت کے بغیر جاری ہو، حیض کہلاتا ہے۔
چونکہ یہ ایک طبعی خون ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کے مخصوص حالات، خاندانی روایات اورآب وہوا کے تغیرات اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس میں مختلف عورتوں کے اعتبار سے تقدیم وتاخیر یاکمی بیشی ہوسکتی ہے۔
حکمت:
جب بچہ شکم مادر میں ہوتا ہے تو اسے باہر سے کوئی غذامہیا نہیں کی جاسکتی، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس خون سے بچے کو غذا مہیا کرنے کا بندوبست کیاہے۔
بچے کی ناف کے ذریعے سے خون سے حاصل شدہ غذائی مواد اس کے رگ وریشے میں پہنچ جاتا ہے۔
﴿ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ﴾ خون حیض میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی حکمت کارفرما ہے، چنانچہ عورت جب حاملہ ہوتی ہے توخون حیض بند ہوجاتا ہے۔
تجربات شاہد ہیں کہ حاملہ عورت کو شاذونادر ہی خون حیض آتا ہے، اسی طرح دودھ پلانے والی ماں کو بالخصوص ابتدائی چند مہینوں تک خون نہیں آتا۔
حیض آنے کی عمر:
عام طور پر عورت کو بارہ سال سے پچاس سال کی عمر تک حیض آسکتا ہے۔
عورتوں کے مخصوص حالات کے پیش نظر اس عمر میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔
اگرچہ بعض علماء نے خون حیض کے متعلق عمر کی حد بندی بھی کی ہے، تاہم امام دارمی فرماتے ہیں کہ اس کی حد بندی کرنا صحیح نہیں۔
عورت کو جب بھی خون آئے گا اسے حیض ہی شمار کیا جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ جب بھی عورت حیض دیکھے، اسے حائضہ کہا جائے گا، خواہ اس کی عمر نوسال سے کم یا پچاس سال سے زائد ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے احکام حیض کے لیے اس کے خون کوبنیاد بنایا ہے، اس لیے کسی قسم کی عمر کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
حدبندی کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جو کتاب وسنت میں نہیں ملتی۔
مقدارحیض:
عورت کو کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کتنے دن خون آسکتا ہے؟اس کے متعلق فقہاء کے چھ یا سات اقوال ہیں:
ابن منذر کہتے ہیں کہ ایک گروہ کے نزدیک خون حیض کے لیے کم از کم زیادہ سے زیادہ دنوں کی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔
یہ بات بھی امام دارمی کے سابق قول کی طرح ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔
کتاب وسنت اور قیاس صحیح کے اعتبار سے یہی صحیح ہے۔
اس کے متعلق مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ﴾ ”لوگ آپ سے حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔
ان سے کہہ دو کہ یہ ایک ناپاک اور تکلیف دہ خون ہے،اس لیے حالتِ حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے پاس نہ جاؤ۔
(ان سے ہم بستری نہ کرو۔
“) (البقرة: 221/2) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے پاس جانے کی پابندی کی حد اس کی پاکیزگی کو ٹھہرایا ہے۔
ایک دن رات یا تین پندرہ دن تک انتہا بیان نہیں فرمائی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکم کی علت حیض کی آمد اور اس کی بازگشت
(واپسی) ہے۔
جب بھی حالت حیض ہوگی، پابندی بحال، بصورت دیگرپابندی ختم ہوجائے گی، یعنی احکام کا مدار حیض کا آنا جانا ہے اوربس۔
حضرت عائشہ ؓ کو حالت احرام میں حیض آگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ ہر وہ کام کرتی رہوجو حاجی لوگ کرتے ہیں تاآنکہ تو پاک ہوجائے۔
حضرت عائشہ نے فرمایا:
مجھے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو طہارت حاصل ہوئی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2921(1211)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ حیض سے پاک ہونے کا انتظار کرو۔
جب پاکی حاصل ہوجائے تو مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلینا۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1785)
اس حدیث کی رو سے بھی رسول اللہ ﷺ نے پابندی کی آمدورفت پر ہے۔
جن حضرات نے حیض کے متعلق ایام کی حد بندی کی ہے، یہ کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے، حالانکہ اگر اس کی کوئی حیثیت ہوتی تو شارع علیہ السلام اس کے متعلق خاموشی اختیار نہ فرماتے۔
اس پر متعدد احکام مرتب ہوتے ہیں۔
جیسا کہ نماز، روزہ، نکاح، طلاق اوروراثت وغیرہ۔
جب اس طرح کی حد بندیوں کا قرآن وحدیث میں وجود نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔
اگر اس سلسلے میں کوئی چیز قابل اعتماد ہے تو وہ حیض کی آمدوبازگشت ہے۔
شریعت نے اس کے متعلق کم از کم یا زیادہ سے زیادہ دنوں کا تعین نہیں کیا۔
جو اس سلسلے میں حد بندی کرتا ہے وہ کتاب وسنت کی خلاف ورزی کاارتکاب کرتا ہے، صحیح قیاس بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیض کو گندا اور نقصان دہ خون قراردیا ہے۔
جب بھی حیض ہوگا، یہ گندگی موجود ہوگی۔
اس میں دوسرے یا پہلے، چوتھے یا تیسرے، سولہویں یاپندرھویں، اٹھارویں یاسترھویں دن میں کوئی فرق نہیں۔
حیض، حیض ہے اور گندگی، گندگی ہے۔
جب بھی یہ موجود ہوگی، اس پر احکام مرتب ہوں گے اور جب ختم ہوجائے گی احکام بھی زائل ہوجائیں گے۔
حد بندی کرنے والوں میں اس کے متعلق بہت اختلاف پایا جاتاہے۔
اس کامطلب ہے كہ حد بندی کے متعلق کوئی ٹھوس دلیل نہیں جس کی طرف رجوع کیاجاسکے۔
یہ سب اجتہادی باتیں ہیں۔
ایسے حالات میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے گا۔
کتاب وسنت سے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ حیض کے متعلق کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں۔
راجح بات یہ ہے کہ کوئی بھی عورت کسی قسم کے زخم کے بغیر اگرخون دیکھتی ہے تو اسے حیض شمار کیا جائے، اس کی عمر یا وقت کی تحدید کرنا درست نہیں۔
ہاں! اگرخون بند نہیں ہوتا یامہینے میں ایک دودن کے لیے انقطاع آتا ہے تو اسے استحاضے کا نام دیاجائے گا۔
امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ جوخون رحم سے برآمد ہو، وہ حیض ہے الا یہ کہ اس کے استحاضہ ہونے پر دلیل مل جائے، نیز آپ نے فرمایا کہ شرمگاہ سے بہنے والا خون حیض ہے بشرطیکہ اسکے رگ سے آنے یا زخم سے بہنے کا علم نہ ہو۔
یہی موقف دین اسلام کی روح کے مطابق ہے اور اس سے ہی دین کے آسان ہونے کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
۔
ہنگامی حالات:
۔
حیض کے متعلق کچھ ہنگامی حالات بھی آجاتے ہیں جس کی چند ایک انواع حسب ذیل ہیں:
۔
عادت سے زیادہ یا کم آجائے، مثلاً:
ایک عورت کو اس کی عادت کے مطابق چھ دن حیض آتا ہے، لیکن کسی ہنگامی حالت میں وہ سات دن تک جاری رہے یا کسی عورت کو سات دن خون آتا ہے، لیکن کسی وجہ سے چھ دن کے بعد طہارت ہوجائے۔
۔
تقدیم وتاخیر، جیسا کہ بعض عورتوں کو مہینے کے آخر میں حیض آتا ہے اور انھیں مہینے کی آغاز میں شروع ہوجائے۔
یا اس کے برعکس عادت کے طور پر مہینے کے آغاز میں آتا ہو لیکن کسی وجہ سے مہینے کے آخر میں خون آجائے، ان دونوں حالتوں کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ عورت جب خون دیکھے تو وہ حائضہ ہے اور جب پاک ہوجائے تو وہ طاہرہ ہے۔
قطع نظر اس سے کہ اس کی عادت سے خون زیادہ دن آتا ہے یا س کی عادت سے کم آتا ہے۔
اورتقدیم وتاخیر کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔
عورت جب بھی حیض کا خون دیکھے گی اس پر احکام حیض عائد ہوں گے، حیض ختم ہوتے ہی وہ احکام بھی ختم ہوجائیں گے۔
اگرعادت کا اعتبار ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے۔
ہاں! استحاضے کی صورت میں عادت کو مدارٹھہرایا گیا ہے جسکی تفصیل سابقہ صفحات میں بیان ہوچکی ہے۔
۔
عورت اگر زرد یاخاکستری ر نگ کی رطوبت دیکھتی ہے تو اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟کتاب وسنت میں اس کی پوری وضاحت ہے کہ اگردوران حیض یا طہر سے چند لمحے قبل زخموں کے پانی جیسا خون دیکھتی ہے تو اسے حیض ہی شمار کیاجائے گا اوراگرطہر کے بعد دیکھا جاتاہے تو اسے شمار نہیں کیاجائے گا۔
جیسا کہ حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم طہر کے بعد زرد یا خاکستری رنگ کی رطوبت کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 307)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
”وہ زرد یا خاکستری رنگ کی رطوبت جو ایام حیض کے علاوہ نظر آئے۔
“حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان بندی سے بظاہر دومتعارض احادیث کے درمیان تطبیق کی صورت پیدا فرمائی ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ چونے کی طرح سفید روئی برآمد ہونے تک صحیح شمارکرتی تھیں، یعنی دوران حیض میں اس رنگ کی رطوبت حیض شمار ہوگی۔
جبکہ حدیث ام عطیہ کا مطلب ہے کہ طہر کے بعد اس رطوبت کا کوئی اعتبار نہ ہوتاتھا۔
منظم طورپر حیض نہ آئے، یعنی ایک دن خون دیکھا تو دوسرے دن خون برآمد نہ ہوا، اس کی دوحالتیں ممکن ہیں:
۔
عورت ہمیشہ ہر وقت اسی کیفیت سے دوچاررہے۔
اس صورت میں عورت کو استحاضے کے احکام اختیار کرنا ہوں گے۔
۔
عورت ہمیشہ اس حالت میں مبتلا نہ ہو بلکہ کبھی کبھار اس سےدوچار ہوتواس میں اختلاف ہے کہ جن ایام میں حیض نہیں آیا، وہ طہر شمار ہوں گے یا ان پر حیض کے احکام جاری ہوں گے؟ امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ دوران حیض میں بندش کے ایام حیض کے شمار ہوں گے۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے، جبکہ حنابلہ کہتے ہیں کہ خون کے ایام حیض کے شمار ہوں گے اور بندش کے ایام کو طہر کہا جائے گا۔
ہاں اگر مجموعی ایام، مدت حیض سے زیادہ ہوں تو مدت حیض سے زیادہ دنوں پر استحاضے کے احکام جاری ہوں گے۔
اس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگربندش کی مدت ایک دن سے کم ہے تواسے شمار نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک کامل دن سے زیادہ ہے تو اسے طہر کہا جائے گا۔
۔
خون بالکل خشک ہوجائے اورعورت محض رطوبت دیکھے تو اس کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر ایسی حالت دوران حیض میں یا طہر سے قبل طاری ہوتی ہے تو اسے حیض شمار کیا جائے گا بصورت دیگر یہ طہر ہے۔
یہ کیفیت ایسے ہی ہے جیسا کہ اسے زرد یا خاکستری رنگ کی رطوبت آنے لگے۔
۔
احکام حیض:
۔
حیض سے متعلقہ احکام بے شمار ہیں۔
ہم صرف چند ایک کا ذکر کرتے ہیں جن کی اکثریت وبیشتر ضرورت پڑتی ہے۔
۔
نماز:
۔
عورت کو ان دنوں نماز پڑھنا حرام ہے۔
ہاں!اگراسے پوری ایک رکعت اداکرنے کے لیے طہر کا وقت مل جائے تو اسے فراغت کے بعد پوری نماز ادا کرنی ہوگی۔
اس کی دوصورتیں ہیں:
۔
عورت کو غروب آفتاب کے بعد حیض شروع ہوا لیکن ایک ر کعت پڑھنے کی گنجائش تھی بعد میں حیض کا آغاز ہواتو اس صورت میں اسے طہارت کے بعد یہ نماز مغرب ادا کرنی ہوگی۔
۔
جب اسے طہارت ایسے وقت میں ہوئی کہ کسی نماز کی ایک رکعت ادا کرنے کی گنجائش تھی تو بھی اسے یہ نماز پوری ادا کرنی ہوگی۔
اگرایک رکعت ادا کرنے کی گنجائش نہ تھی تو اسے یہ نماز معاف ہے۔
نماز کے علاوہ ذکر، تسبیح وتہلیل اور دعا وغیرہ کرسکتی ہے۔
کتب احادیث اور کتب فقہ کا مطالعہ بھی کرسکتی ہے، بلکہ قرآن کریم کی تلاوت بھی سن سکتی ہے۔
صرف نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔
حائضہ عورت کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کے متعلق جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ دل میں تو پڑھا جاسکتا ہے، البتہ زبان سے اس کی قراءت جائز نہیں، لیکن امام بخاری ؒ، ابن جریر طبری ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ، امام ابن قیم ؒ، امام ابن حزم ؒ، اور امام ابن منذر ؒ کا موقف ہے کہ حائضہ تلاوت قرآن کرسکتی ہے۔
اس سلسلے میں جو احادیث مروی ہیں وہ صحیح نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عورتوں کو حیض آتا تھا، اگر ممانعت ہوتی تو حیض کی طرح اس کی بھی وضاحت کے ساتھ روایات ہوتیں، لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے ممانعت ثابت نہیں۔
شیخ محمد بن صالح عثمین ؒ نے تطبیق کی صورت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ حائضہ عورت کو زبان سے تلاوت نہیں کرنی چاہیے، ہاں!اگر اسے امتحان دینا ہے اور طالبات کی تصیح کرنا ہے تو ایسی صورت میں قرآن کی تلاوت کی جاسکتی ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ کوئی مجبوری نہیں، بہتر ہے کہ ان دنوں تلاوت قرآن سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔
۔
روزہ:
۔
حائضہ عورت کو نماز کی طرح روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے، لیکن فراغت کے بعد ان رزوں کی قضا اداکرنی ہوگی جو حیض کے دوران میں رہ گئے ہیں۔
اگرروزے کی حالت میں غروب آفتاب سے چند منٹ قبل حیض آگیا تو وہ روزہ بھی ختم ہوجائے گا، اس کی فراغت کےبعد قضا دینی ہوگی، ہاں!اگرغروب آفتاب سے پہلے حرکتِ خون محسوس کرتی ہے، لیکن اس کا خروج غروب آفتاب کے بعد ہوا ہے تو اس صورت میں اس کا روزہ مکمل ہے، اسے بعد میں قضا کرنے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح اگر فجر سے چند منٹ پہلے وہ حیض سے فارغ ہوجاتی ہے تو غسل سے پہلے سحری کھا کر روزہ رکھ سکتی ہے، البتہ نماز فجر غسل کے بعداداکرنی ہوگی۔
جیسا کہ جنبی بھی بحالت جنابت روزہ رکھ سکتا ہے۔
۔
طواف۔
:
حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف بھی نہیں کرنا چاہیے، خواہ طواف فرض ہو یانفل۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کر جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تاآنکہ تجھے طہارت حاصل ہوجائے۔
صفا مروہ کی سعی، میدان عرفہ میں وقوف، مزدلفہ اورمنیٰ میں ٹھہرنا اوررمی جمارکرنے کے متعلق کوئی پابندی نہیں۔
اس بنا پر اگر کسی عورت نے بحالت طہارت طواف مکمل کرلیا، پھر فوراً بعد حیض آگیا تو اس کا طواف مکمل ہے۔
اسی طرح سعی کرتے وقت اگرحیض آجائے تو اپنی سعی مکمل کرلینی چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
۔
طواف وداع:
طواف وداع بھی حائضہ عورت سے ساقط ہوجاتا ہے۔
اگر کسی عورت نے اپنا حج مکمل کرلیا ہے، لیکن طواف وداع سے پہلے اسے حیض آگیا تو اس کے لیے ایام طہارت کا انتظار نہ کرے بلکہ طواف وداع کیے بغیر واپس وطن لوٹ آئے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے:
لوگوں کو چاہیے کہ وہ طواف وداع کریں، البتہ حائضہ عورت کے لیے تخفیف ہے کہ اس کے بغیر بھی واپس آسکتی ہے۔
بعض عورتیں اس حالت میں مسجد حرام کے دروازے کے پاس آکر دعا مانگتی ہیں۔
ان کا یہ فعل سنت کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں روانگی سے قبل حضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیاتو آپ نے اسے طواف وداع کیے بغیر روانہ ہونے کے متعلق حکم دیا، یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد حرام کے دروازے کے پاس دعا کرکے آئے، اگرایسا کوئی حکم ہوتا تو منقول ہوتا، البتہ طواف حج کسی صورت میں معاف نہیں۔
طواف حج سے مراد دسویں تاریخ کا طواف ہے۔
جسے طواف افاضہ اورطواف زيارت بھی کہا جاتا ہے۔
اگرعورت صرف عمرے کی نیت سے آئی ہے تو اس کے لیے عمرے کا طواف ضروری ہوگا۔
وہ حیض ختم ہونے کا انتظار کرے اور طہارت حاصل کرنے کے بعد طواف کرکے واپسی آئے گی تب اس کا عمرہ مکمل ہوگا۔
اگرعورت حج کی نیت سے آئی ہے اور اسے حیض جاری ہوگیا ہے تو پھر اس سے طواف قدوم اورطواف وداع ساقط ہوجائے گا۔
جیسا کہ تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔
۔
مسجد میں داخل ہونا بھی حائضہ عورت کے لیے جائز نہیں، بلکہ عید گاہ میں بھی وہ عام عورتوں سے الگ بیٹھے۔
حدیث میں ہے کہ نوجوان لڑکیاں، دیگر خواتین اورحائضہ عورتیں عید کے لیے جائیں، لیکن حائضہ عورتیں عید گاہ سے الگ ہوکر بیٹھیں۔
۔
دوران حیض میں خاوند کے لیے عورت سے مقاربت کرنا بھی حرام ہے۔
عورت کو بھی چاہیے کہ وہ کسی صورت میں اپنے خاوند کو موقع نہ دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ﴾ ”لوگ آپ سے حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔
ان سے کہہ دو کہ یہ ایک ناپاک اور تکلیف دہ خون ہے،اس لیے حالتِ حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے پاس نہ جاؤ۔
“ (البقرة: 222/2)
محیض سےمراد حیض کا مقام اوروقت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
”جماع کے علاوہ تمھیں حائضہ عورت سے ہر قسم کا استمتاع کرنے کی اجازت ہے۔
“ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 694(302)
نیز اُمت کا اجماع ہے کہ اس دوران میں خاوند اپنی بیوی سے جماع نہیں کرسکتا، البتہ اس دوران میں بیوی سے بوس وکنار اور اس کے ساتھ محواستراحت ہونے کی اجازت ہے، بشرطیکہ اسے اپنے آپ پر کنڑول ہو۔
۔
طلاق:
۔
خاوند پرحرام ہے کہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے، کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم ایسی حالت میں طلاق دوکہ وہ طلاق کے بعد اپنی عدت کا آغاز کرسکے، لہذا حیض کی حالت میں بیوی کو طلاق نہیں دینی چاہیے، البتہ اس سے تین صورتیں مستثنیٰ ہیں:
۔
عورت سے نکاح کرنے کے بعد مقاربت یا خلوت صحیحہ سے پہلے اگرطلاق دیناہوتو وہ حالت حیض میں دی جاسکتی ہے، کیونکہ ایسی صورت میں عورت کے ذمے عدت وغیرہ ہوتی ہی نہیں۔
۔
حالت حمل میں اگرحیض آجائے تو اس حالت میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے جیسا کہ پہلے وضاحت ہوچکی ہے، کیونکہ اس صورت میں عدت وضع حمل ہے، خواہ حیض آئے یا نہ آئے۔
۔
اگرعورت کے مطالبے پرخلع کی صورت میں طلاق دی جائے تو وہ بھی حیض کی حالت میں دی جاسکتی ہے۔
البتہ حالت حیض میں نکاح کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں، لیکن اس حالت میں خاوند کو بیوی کے پاس نہیں جاناچاہیے۔
اگراسے خود پر کنٹرول ہوتواس کے پاس جانے (لیٹنے)
میں کوئی حرج نہیں، تاہم بہتر ہے کہ اس سے پرہیز کرے۔
۔
عدت کا اعتبار:
۔
جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور وہ حاملہ نہ ہوتو اسے تین حیض آنے تک عدت گزارنی ہوگی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ ”اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہے انھیں چاہیے کہ وہ تین حیض آنے تک انتظار کریں۔
“ (البقرة: 228/2)
اگرعورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک عدت گزارنی ہوگی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ﴾ ”اگرطلاق یافتہ عورت حاملہ ہے تواس کی عدت وضع حمل ہے۔
“ (الطلاق: 65/4)
اگر وہ حاملہ نہیں اسے حیض ہی آتا ہے تو اسے عدت کے بطور تین قمری مہینے کاانتظار کرناہوگا۔
حمل کے علاوہ حیض کے نہ آنے کی تین صورتیں ہیں: 1۔
وہ نابالغہ ہو۔
2۔
بوڑھی ہوچکی ہو۔
3۔
کسی بیماری کیوجہ سے رحم نکال دیاگیا ہو یابے کار ہوچکا ہو۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ﴾ ” تمہاری جو عورتیں حیض سے مایوس ہیں اور وہ جنھیں حیض آنا شروع ہوا، ان کی عدت تین ماہ ہے۔
“ (الطلاق: 65/4)
جن عورتوں کو حیض آتا ہو لیکن کسی بیماری یا دودھ پلانے کی وجہ سے عارضی طور پر موقوف ہوگیا ہو، ایسی عورتوں کواگرطلاق ہوجائے تو انھیں تین حیض آنے تک انتظار کرناہوگا، خواہ وہ مدت کتنی لمبی ہوجائے۔
اگرمدت رضاعت ختم ہوگئی یا بیماری سے شفا مل گئی، لیکن ان کا حیض شروع نہیں ہوا تو ایسی عورتوں کو پورا سال انتظار کرنا ہوگا۔
جن عورتوں کو مقاربت کےبغیر طلاق ہوجائے ان پر کوئی عدت نہیں۔
وہ طلاق ہوتے ہی عقد زوجیت سے آزاد ہوجاتی ہیں۔
۔
رحم کا خالی ہونا:
جن عورتوں کو حیض آجائے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ان کے رحم میں کچھ نہیں ہے۔
اگرخلورحم کی ضرورت ہوتو اس کا مدار حیض کاآناہوگا۔
۔
وجوب غسل:
۔
جب حائضہ عورت حیض سے فارغ ہوجائے تو اسے غسل کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ بنت ابی حبیش کو حکم دیا تھا:
”جب تجھے حیض آجائے تو نماز چھوڑدے اور جب حیض بند ہوجائےتو غسل کرکے نماز شروع کردے۔
“ (صحیح البخاری، الوضوء، حدیث: 228)
اگر عورت کسی نماز کے وقت حیض سے فارغ ہوتو اسے چاہیے کہ جلدی غسل کرے تاکہ نماز کو بروقت ادا کرسکے۔
اگر سفر میں ہو اور پانی نہیں مل سکتا یا پانی موجود ہولیکن اس کے استعمال سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتوتیمم کرکے نماز پڑھے۔
جب عذر ختم ہوجائے تو غسل کرے۔
بعض عورتیں کسی نماز کے وقت میں حیض سے فارغ ہوجاتی ہیں، لیکن غسل کو اس بہانے مؤخر کردیتی ہیں کہ وقت بہت کم ہے، اتنے وقت میں اچھی طرح غسل نہیں ہوسکتا، عورتوں کا یہ عذر لنگ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے۔
انھیں چاہیے کہ تمام بدن پر پانی ڈال کر غسل کرلیں اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچادیں، پھر بروقت نماز ادا کریں۔
اس کے بعد کھلے وقت میں اچھی طرح غسل کا اہتمام کرلیں۔
۔
مانع حیض ادویات کا استعمال:
کسی ضرورت کے پیش نظر مانع حیض ادویات استعمال کی جاسکتی ہیں، لیکن اس کے لیے دوشرطیں ہیں:
۔
ان کے استعمال سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔
اگرنقصان کا خطرہ ہوتو ان کا استعمال جائز نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾ ”اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت پڑو۔
“ (البقرة: 195/2)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ﴾ ”اپنے آپ کو قتل نہ کرو“ (النساء: 29/4)
ان ارشادات کے پیش نظر اگر واضح طور پر کسی نقصان کا اندیشہ ہوتو مانع حیض ادویات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۔
اگر اس کے ساتھ خاوند کا تعلق ہے تو اس سے اجازت لینا بھی ضروری ہے، مثلاً:
عورت کسی ایسی عدت میں ہے کہ اس کا نان ونفقہ خاوند کے ذمے ہے، اس حالت میں عورت مانع حیض ادویات استعمال کرکے اپنی عدت طویل کرنا چاہتی ہوتاکہ اسے تادیر خرچہ ملتا رہ، اس صورت میں خاوند سے اجازت لینی پڑے گی۔
جواز کے باوجود عورت کےحق میں بہتر یہ ہے کہ ایسی ادویات شدید ضرورت کے علاوہ استعمال نہ کرے، کیونکہ قدرت کے نظام سے چھیڑ چھاڑ کرنا اچھا کام نہیں۔
فطرت نے عورت میں اعتدال اور اس کی صحت کے پیش نظر نظام حیض کو جاری کیا ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ اس فطرتی نظام کو برقرار رکھاجائے۔
واللہ أعلم۔
اسی طرح جریان حیض کے لیے ادویات کا استعمال بھی جائز ہے۔
اسکی بھی دوشرطیں ہیں:
۔
کسی واجب کے اسقاط کا حیلہ نہ بنایاجائے، مثلاً:
رمضان کے آغاز میں ایسی ادویات استعمال کرلی جائیں تاکہ حیض جاری ہوجائے اور رمضان کے روزے نہ رکھے جائیں یا نماز کی ادائیگی سے رخصت مل جائے، ایساکرنا ناجائز ہے۔
۔
اس کے متعلق بھی خاوند سے اجازت لینی ہوگی کیونکہ وہ دوران حیض میں اپنی بیوی سے پوری طرح استمتاع نہیں کرسکتا، ہاں! اگر وہ اجازت دے دے تو الگ بات ہے۔
اگرعورت مطلقہ ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ جریان حیض ادویات استعمال کرکے اپنی عدت کی مدت کم کرے تاکہ خاوند کا حق رجوع جلدی ختم ہوجائے۔