مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر

مسند الحميدي
سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 157
Save to word اعراب
157 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا بيان بن بشر، وإسماعيل بن ابي خالد قالا: سمعنا قيسا يقول: سمعت خبابا يقول: اتيت رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو متوسد برده في ظل الكعبة وقد لقينا من المشركين شدة شديدة فقلت: يا رسول الله الا تدعو الله لنا؟ فقعد وهو محمر وجهه فقال: «إن كان من كان قبلكم ليمشط احدهم بامشاط الحديد ما دون عظمه من لحم او عصب ما يصرفه ذلك عن دينه، ويوضع المنشار علي مفرق راسه فيشق باثنين ما يصرفه ذلك عن دينه، وليتمن الله هذا الامر حتي يسير الراكب من صنعاء إلي حضرموت لا يخاف إلا الله» زاد بيان «والذئب علي غنمه» 157 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا بَيَانُ بْنُ بِشْرٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَا: سَمِعْنَا قَيْسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ خَبَّابًا يَقُولُ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَقَدْ لَقِينَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ شِدَّةً شَدِيدَةً فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا؟ فَقَعَدَ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ لَيُمْشَطُ أَحَدُهُمْ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُوضَعُ الْمِنْشَارُ عَلَي مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَيْنِ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّي يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَي حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ» زَادَ بَيَانٌ «وَالذِّئْبَ عَلَي غَنَمِهِ»
157- قیس بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کے ساتھ ٹیک لگا کر خانۂ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، ہمیں مشرکین کی طرف سے شید تکالیف کا سامانا کرنا پڑا تھا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے جس میں سے کسی ایک پر لوہے کی کنگھی پھیری گئی، جو اس کے گوشت اور پٹھوں سے ہوکر ہڈی تک پہنچی لیکن اس چیز نے بھی انہیں ان کے دین سے نہیں پھیرا، کسی شخص کے سر پر آری رکھ کر اسے دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا، تو اس چیز نے بھی انہیں ان کے دین سے نہیں پھیرا، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو ضرور مکمل کرے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے چل کر حضرموت تک جائے گا اور اسے صرف اللہ کا خوف ہوگا۔
بیان نامی راوی نے یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں۔ اور اسے اپنی بکریوں کے حوالے سے بھیڑیے کا خوف ہوگا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 3852، 3612، 6943، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 2897، 6698، وأبو يعلى فى ”مسنده“: برقم: 7213»

   صحيح البخاري3612خباب بن الأرتكان الرجل فيمن قبلكم يحفر له في الأرض فيجعل فيه فيجاء بالمنشار فيوضع على رأسه فيشق باثنتين وما يصده ذلك عن دينه ويمشط بأمشاط الحديد ما دون لحمه من عظم أو عصب وما يصده ذلك عن دينه والله ليتمن هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخاف إلا الله و
   صحيح البخاري6943خباب بن الأرتكان من قبلكم يؤخذ الرجل فيحفر له في الأرض فيجعل فيها فيجاء بالمنشار فيوضع على رأسه فيجعل نصفين ويمشط بأمشاط الحديد ما دون لحمه وعظمه فما يصده ذلك عن دينه والله ليتمن هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخاف إلا الله والذئب على غنمه ولكنكم تست
   صحيح البخاري3852خباب بن الأرتكان من قبلكم ليمشط بمشاط الحديد ما دون عظامه من لحم أو عصب ما يصرفه ذلك عن دينه ويوضع المنشار على مفرق رأسه فيشق باثنين ما يصرفه ذلك عن دينه وليتمن الله هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت ما يخاف إلا الله
   سنن أبي داود2649خباب بن الأرتكان من قبلكم يؤخذ الرجل فيحفر له في الأرض ثم يؤتى بالمنشار فيجعل على رأسه فيجعل فرقتين ما يصرفه ذلك عن دينه ويمشط بأمشاط الحديد ما دون عظمه من لحم وعصب ما يصرفه ذلك عن دينه والله ليتمن الله هذا الأمر حتى يسير الراكب ما بين صنعاء و حضرموت ما يخاف إلا الله
   مسندالحميدي157خباب بن الأرتإن كان من كان قبلكم ليمشط أحدهم بأمشاط الحديد ما دون عظمه من لحم أو عصب ما يصرفه ذلك عن دينه، ويوضع المنشار على مفرق رأسه فيشق باثنين ما يصرفه ذلك عن دينه، وليتمن الله هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخاف إلا الله

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 157 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:157  
فائدہ:
اس حدیث میں اسلام کی خاطر آنے والی تکالیف پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پہلی امتوں پر کیے گئے ظلم وستم بیان کیے گئے ہیں۔ کفار نے ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر ظلم کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور امت مسلمہ کو دین اسلام پر استقامت عطا فرماۓ، آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 157   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2649  
´مسلمان قیدی کفر پر مجبور کیا جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر پر تکیہ لگائے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے (کافروں کے غلبہ کی) شکایت کی اور کہا: کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے؟ کیا آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا نہیں کرتے؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، اور فرمایا: تم سے پہلے آدمی کا یہ حال ہوتا کہ وہ ایمان کی وجہ سے پکڑا جاتا تھا، اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا تھا، اس کے سر کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا مگر یہ چیز اسے اس کے د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2649]
فوائد ومسائل:
مسلمان اگرکفار کے نڑغے میں ہوں۔
اور اپنی جان بچانے کےلئے بظاہر کفریہ کلمات بول دیں۔
تو رخصت ہے۔
قرآن مجید نے اس ضمن میں بیان کیا ہے۔
(مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ) (النحل۔
106)
جس نے ایمان لے آنے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کیا (تو اس پر اللہ کا غضب ہے۔
)
سوائے اس کے جسے مجبور کر دیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطئمین رہا۔
سورہ آل عمران (آیت 28) میں ہے۔
(إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ) اگر تم کفار سے بچائو کی کوئی صورت بنالو تو (کوئی حرج نہیں)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2649   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3612  
3612. حضرت خباب بن رات ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کے سائے تلے اپنی چادر سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے ہم نے آپ سے کفارکی ایذا کےمتعلق شکایت کی۔ ہم نے عرض کیا: آپ ہمارےلیے مدد کیوں نہیں مانگتے؟آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟آپ نے فرمایا: تم لوگوں سے پہلے کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھوداجاتا۔ پھر اس میں انھیں کھڑا کر دیا جاتا۔ پھر آرا لایا جا تا اور ان کے سر پر رکھ کر ان کے دوٹکڑے کردیے جاتے لیکن اس قدر سختی ان کو دین سے برگشتہ نہ کرتی تھی۔ پھر ان کے گوشت کے نیچے ہڈی اور پٹھوں پر لوہے کی کنگھیاں کھینچ دی جاتیں تھیں، لیکن یہ اذیت بھی انھیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکی۔ اللہ کی قسم!یہ دین ضرور مکمل ہوگا، اس حدتک کہ اگر کوئی مسافر صنعاء سے حضر موت کا سفر کرے گا تو اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور نہ کوئی اپنی بکریوں کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3612]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی یہ پیش گوئی بھی اپنے وقت پر پوری ہوچکی ہے اور آج سعودی دور میں بھی حجاز میں جو امن وامان ہے وہ بھی اس پیش گوئی کا مصداق قراردیاجاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو قائم ودائم رکھے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3612   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3852  
3852. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ بیت اللہ کے سائے میں چادر اوڑھے تکیہ لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں مشرکین کے ہاتھوں سخت تکالیف پہنچ رہی تھیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ بیٹھ گئے، آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا: بلاشبہ تم سے پہلے کچھ لوگ ایسے تھے کہ لوہے کی کنگھیوں کو ان کے گوشت اور پٹھوں سے گزار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا جاتا اور اس قدر سنگین تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہ کر سکیں۔ کسی کے سر پر آرا رکھ کر انہیں دولخت کر دیا گیا، یہ سختی بھی انہیں ان کے دین سےنہ پھیر سکی۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالٰی اس دین کو ایک نہ ایک دن ضرور کمال تک پہنچائے گا حتی کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک تنہا سفر کرے گا اسے اللہ کے سوا کسی اور کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3852]
حدیث حاشیہ:
حضرموت شمالی عرب میں ایک ملک ہے اس میں اور صنعاء میں پندرہ دن پیدل چلنے والوں کا راستہ ہے۔
اس سے امن عام مراد ہے جوبعد میں سارے ملک عرب میں اسلام کے غلبہ کے بعد ہوا اور آج سعودی عرب کے دور میں یہ امن سارے ملک میں حاصل ہے اللہ پاک اس حکومت کو قائم ودائم رکھے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3852   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6943  
6943. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی حالت زار بیان کی جبکہ اس وقت آپ کعبے کے سائے میں اپنی چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی: آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ تھے ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا، زمین میں اس کے گڑھا کھود کر اس میں اسے بٹھا دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو الگ الگ کر دیا جاتا لیکن یہ آزمائشیں اسے اپنے دین سے برگشتہ نہ کرتی تھیں۔ اللہ کی قسم! یہ (اسلام کا) کام ضرور مکمل ہوگا حتی کہ صںعاء سے حضرت موت کا سفر کرنے والا شخص اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا اور نہ بھیڑیے کے علاوہ بکریوں کو کسی سے خطرہ ہوگا لیکن تم لوگ جلدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6943]
حدیث حاشیہ:
آپ کی یہ بشارت پوری ہوئی سارا عرب کافروں سے صاف ہو گیا۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ خباب نے کفار کی تکالیف پر صبر کیا صرف شکوہ کیا مگر اسلام پر قائم رہے۔
آپ نے خباب کی درخواست پر فوراً بددعا نہ کی بلکہ صبر کی تلقین فرمائی۔
انبیاء کی یہی شان ہوتی ہے۔
آخر آپ کی پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور آج اس چودہویں صدی کے خاتمہ پر عرب کا ملک امن کا ایک مثالی گہوارہ بنا ہوا ہے۔
یہ اسلام کی برکت ہے۔
اللہ اس حکومت سعودیہ کو ہمیشہ قائم دائم رکھے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6943   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3612  
3612. حضرت خباب بن رات ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کے سائے تلے اپنی چادر سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے ہم نے آپ سے کفارکی ایذا کےمتعلق شکایت کی۔ ہم نے عرض کیا: آپ ہمارےلیے مدد کیوں نہیں مانگتے؟آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟آپ نے فرمایا: تم لوگوں سے پہلے کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھوداجاتا۔ پھر اس میں انھیں کھڑا کر دیا جاتا۔ پھر آرا لایا جا تا اور ان کے سر پر رکھ کر ان کے دوٹکڑے کردیے جاتے لیکن اس قدر سختی ان کو دین سے برگشتہ نہ کرتی تھی۔ پھر ان کے گوشت کے نیچے ہڈی اور پٹھوں پر لوہے کی کنگھیاں کھینچ دی جاتیں تھیں، لیکن یہ اذیت بھی انھیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکی۔ اللہ کی قسم!یہ دین ضرور مکمل ہوگا، اس حدتک کہ اگر کوئی مسافر صنعاء سے حضر موت کا سفر کرے گا تو اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور نہ کوئی اپنی بکریوں کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3612]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو شدائد و مصائب میں صبر کرنے کی تلقین فرمائی کہ وہ کفار کی اذیتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں کیونکہ ایسا وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کو کفار سے کسی قسم کا ڈراور خطرہ نہیں ہو گا وہ امن و امان کی حالت میں جہاں چاہیں سفر کریں گے ان کے دلوں میں صرف اللہ کا ڈر ہو گا۔

صنعاء سے صنعائے یمن مراد ہو تو اس کے اور حضرموت کے درمیان پانچ دن کی مسافت ہے اور اگر صنعاء سے مراد شام ہے تو پھر مسافت بعید مراد ہے لیکن پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی۔
حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
آج بھی سعودی دور حکومت میں علاقہ حجاز کے اندر جو امن و امان ہے وہ بھی اس پیش گوئی کا مصداق قراردیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادیر قائم ودائم رکھے اور حاسدین کے حسد سے بچائے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3612   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3852  
3852. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ بیت اللہ کے سائے میں چادر اوڑھے تکیہ لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں مشرکین کے ہاتھوں سخت تکالیف پہنچ رہی تھیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ بیٹھ گئے، آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا: بلاشبہ تم سے پہلے کچھ لوگ ایسے تھے کہ لوہے کی کنگھیوں کو ان کے گوشت اور پٹھوں سے گزار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا جاتا اور اس قدر سنگین تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہ کر سکیں۔ کسی کے سر پر آرا رکھ کر انہیں دولخت کر دیا گیا، یہ سختی بھی انہیں ان کے دین سےنہ پھیر سکی۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالٰی اس دین کو ایک نہ ایک دن ضرور کمال تک پہنچائے گا حتی کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک تنہا سفر کرے گا اسے اللہ کے سوا کسی اور کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3852]
حدیث حاشیہ:

صنعاء ملک یمن کا ایک شہر ہے جس میں بکثرت باغات ہوتے ہیں اور حضر موت شمالی عرب کا ایک قصبہ ہے جہاں کھجوروں کے باغات ہیں۔
ان کے درمیان پیدل چلنے والوں کے لیے پندر دن کی مسافت ہے۔
اس حدیث میں امن عام مراد ہے جو غلبہ اسلام کے بعد پورے عرب میں لوگوں کو حاصل ہوا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں ایسے واقعات ہوئے کہ چرواہے اپنی بکریوں کے معاملے میں بھیڑیوں سے بے خوف تھے حتی کہ انھیں ان کی موت کا علم ہی اس وقت ہوا جب بھیڑیوں نے بکریوں پر حملہ کرنا شروع کردیا۔

آج کل سعودی عرب میں اس قسم کا امن تمام لوگوں کو ملا ہے۔
وہاں سونے سے بھری دوکانیں کھلی رہتی ہیں کسی کو چوری کا ڈر نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو قائم و دائم رکھے جو اشاعت اسلام اور ترویج توحید میں پیش پیش ہے۔

بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصود ان تکالیف کو بیان کرنا ہے جو مشرکین کی طرف سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کو اٹھانا پڑیں۔
رضي اللہ عنهم اجمعین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3852   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6943  
6943. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی حالت زار بیان کی جبکہ اس وقت آپ کعبے کے سائے میں اپنی چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی: آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ تھے ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا، زمین میں اس کے گڑھا کھود کر اس میں اسے بٹھا دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو الگ الگ کر دیا جاتا لیکن یہ آزمائشیں اسے اپنے دین سے برگشتہ نہ کرتی تھیں۔ اللہ کی قسم! یہ (اسلام کا) کام ضرور مکمل ہوگا حتی کہ صںعاء سے حضرت موت کا سفر کرنے والا شخص اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا اور نہ بھیڑیے کے علاوہ بکریوں کو کسی سے خطرہ ہوگا لیکن تم لوگ جلدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6943]
حدیث حاشیہ:

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت کافروں کے ہاتھوں گرفتار تھے۔
وہ انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دیتے اور کفر میں واپس لوٹ جانے پر مجبور کرتے تھے۔
انھوں نے کفر پرمارپیٹ کو پسند کیا۔
ایسےحالات میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا کریں لیکن آپ نے انھیں صبرکرنے کی تلقین کی اور فرمایا:
تم سے پہلے لوگ زیادہ سنگین حالات سے دوچار ہوتے تھے۔
مصائب وآلام کی رات ختم ہونے والی ہے، اس لیے تم جلدی سے کام نہ لو۔

اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کو کفر پرمجبور کیا جائے تو اسے رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر کفر کے علاوہ کسی چیز پر مجبور کیا جائے تو اسے رخصت کو قبول کرنا چاہیے۔
گویا جبرواکراہ کی دو قسمیں ہین:
ایک مُبَاح اور دوسری مُرَخّص، اس کی تفصیل ہم تعارفی نوٹ میں بیان کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6943   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.