1298- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے موقع پر میرے والد شہید ہوگئے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا ان کی میت کی بت حرمتی کی گئی تھی میں نے ان چہرے سے کپڑا ہٹا نے کا ارادہ کیا، تو میری قوم کے افراد نے مجھے منع کردیا میں ان کے منہ سے کپڑا ہٹانا چاہ رہا تھا، لیکن میری قوم کے افرا مجھے منع کررہے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے اٹھا لیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے کی آواز سنی تو دریافت کیا: ”یہ کون ہے“؟ لوگوں نے بتایا: عمرو کی صاحبزادی ہے (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) عمرو کی بہن ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ نہ روؤ (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تم کیوں رورہی ہو؟ فرشتوں نے اس کے اٹھائے جانے تک مسلسل اپنے پروں کے ذریعے اس پر سایہ کیا ہوا تھا“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1843
´میت کو ڈھانپنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن میرے والد کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا گیا، اور ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، میں نے ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانا چاہا تو لوگوں نے مجھے روک دیا، (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اٹھانے) کا حکم دیا، انہیں اٹھایا گیا، تو جب وہ اٹھائے گئے تو آپ نے کسی رونے والے کی آواز سنی تو پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ تو لوگوں نے کہا: یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے، آپ نے فرمایا: ”مت روؤ“، یا فرمایا: ”کیوں روتی ہو؟ جب تک انہیں اٹھایا نہیں گیا تھا فرشتے انہیں برابر سایہ کئے ہوئے تھے۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1843]
1843۔ اردو حاشیہ:
➊ ”عمرو کی بیٹی“ اس صورت میں یہ جابر کے شہید والد کی بہن تھیں اور اگر وہ عمرو کی بہن تھیں تو جابر کے والد کی پھوپھی تھیں۔ پہلی بات صحیح ہے کہ وہ شہید کی بہن تھیں ……… رضی اللہ عنہا ……… دراصل یہ کسی راوی کو شک ہے کہ وہ عمرو کی بیٹی تھی یا عمرو کی بہن۔
➋ ”سایہ کیے رکھا“ مطلب یہ ہے کہ اتنے شرف والی شہادت پر آہ و زاری مناسب نہیں، اگرچہ دل اور آنکھیں تو غم کرتے ہیں۔
➌ وفات کے بعد میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ اگر موت کی وجہ سے اس کے چہرے وغیرہ میں کوئی تغیر آیا ہو تو نظر نہ آئے۔ غسل و تکفین کے بعد جب اسے صاف ستھرا کر کے حتی الامکان خوب صورت بنا دیا جاتا ہے، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے چہرہ دیکھنے کے لیے رکھ جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور میں کسی قسم کے تغیر کا امکان نہیں تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غسل و تکفین سے پہلے بھی آپ کو دیکھا اور بوسہ دیا ……… رضی اللہ عنہ ………۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1843
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6355
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6355]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی قوم،
لاش سے کپڑا ہٹانے سے روک رہی تھی کہ یہ حالت دیکھ کر زیادہ غم و حزن کا شکار ہوں گے اور زیادہ روئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے نہیں روک رہے تھے کہ اس طرح رکاوٹ اور ان سے غم و حزن میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دیکھ کر کچھ تسلی ہو جاتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہانا دل کے غم کو ہلکا کرتا ہے،
اس لیے شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6355
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6355
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6355]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی قوم،
لاش سے کپڑا ہٹانے سے روک رہی تھی کہ یہ حالت دیکھ کر زیادہ غم و حزن کا شکار ہوں گے اور زیادہ روئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے نہیں روک رہے تھے کہ اس طرح رکاوٹ اور ان سے غم و حزن میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دیکھ کر کچھ تسلی ہو جاتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہانا دل کے غم کو ہلکا کرتا ہے،
اس لیے شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6355
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1244
1244. حضرت جابر ؓ بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میرے والد جب (غزوہ احد میں) شہید ہوئے تو میں بار بار ان کے چہرے سے پردہ ہٹاتا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ مجھے منع نہیں فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ بھی رونے لگی تو نبی کریم ﷺ نےفرمایا:”تو رو یا نہ رو، فرشتے تو ان پر اپنے پروں کا سایہ کیے رہے حتیٰ کہ تم نے انھیں اٹھالیا۔“ ابن جریج نے شعبہ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے کہا:مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1244]
حدیث حاشیہ:
منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کافروں نے حضرت جابر ؓ کے والد کو قتل کر کے ان کے ناک کان بھی کاٹ ڈالے تھے۔
ایسی حالت میں صحابہ نے یہ مناسب جانا کہ جابر ؓ ان کو نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا تاکہ ان کو مزید صدمہ نہ ہو۔
حدیث سے نکلا کہ مردے کو دیکھ سکتے ہیں۔
اسی لیے آنحضرت ﷺ نے جابر کو منع نہیں فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1244
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1244
1244. حضرت جابر ؓ بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میرے والد جب (غزوہ احد میں) شہید ہوئے تو میں بار بار ان کے چہرے سے پردہ ہٹاتا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ مجھے منع نہیں فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ بھی رونے لگی تو نبی کریم ﷺ نےفرمایا:”تو رو یا نہ رو، فرشتے تو ان پر اپنے پروں کا سایہ کیے رہے حتیٰ کہ تم نے انھیں اٹھالیا۔“ ابن جریج نے شعبہ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے کہا:مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1244]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جابر ؓ کے والد گرامی جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور مشرکین نے ان کے ناک اور کان وغیرہ کاٹ کر ان کا مثلہ کر دیا تھا۔
حضرت جابر ؓ کا ان کے چہرے سے بار بار پردہ اٹھا کر رونا اس بنا پر تھا۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ میت کو کفن میں لپیٹ دینے کے بعد اسے دیکھا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض رونا، جس میں نوحہ نہ ہو، ممنوع نہیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق جنتی ہونے کا فیصلہ فرمایا، کیونکہ فرشتوں کا اپنے پروں سے سایہ کرنا جنتی ہونے کی علامت ہے۔
نبی ﷺ کے فیصلے کی بنیاد وحی تھی۔
اپنے ظن و تخمین سے کسی کے متعلق جنتی ہونے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
ابن جریج کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 150/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1244
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1293
1293. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میرے والد گرامی کو احد کے دن اس حالت میں لایاگیا کہ ان کا مثلہ کیا گیا تھا۔ انھیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ کر کپڑے سے ڈھانپ دیاگیا۔ میں اس ارادے سے ان کے قریب گیا کہ ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاؤں، لیکن میری قوم نے مجھے منع کردیا۔ میں دوبارہ ان کے پاس گیا تاکہ کپڑا اٹھاؤں مجھے پھرلوگوں نے منع کردیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے ان کی میت کواٹھانے کا حکم دیا تو آپ نے چیخ مارنے والی عورت کی آواز سنی۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ لوگوں نےبتایا کہ عمرو کی بیٹی یا ان کی بہن ہے۔ آپ نے فرمایا:”یہ کیوں روتی ہے؟“ یافرمایا:”یہ نہ روئے، فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایہ کیے ہوئے تھے تا آنکہ انھیں اٹھا لیاگیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1293]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبل ازیں ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ رونے والی حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ تھیں۔
(حدیث: 1244)
لیکن امام حاکم نے اپنی کتاب الإكليل میں اس کا نام ہند بنت عمرو لکھا ہے۔
ممکن ہے کہ دونوں بہنیں وہاں موجود ہوں یا ایک ہی مراد ہو، مذکورہ نام اس کا لقب ہو یا اس کے دو نام ہوں۔
(فتح الباري: 208/3) (2)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے والد گرامی پر فرشتوں کے سایہ کرنے کا ذکر فرمایا کہ اس قدر عظیم منصب کے حصول پر تو خوش ہونا چاہیے نہ کہ اس پر رونے دھونے کی زحمت گوارا کی جائے۔
یہ رونے کا کیا موقع ہے! اس ارشاد مبارک میں اغماض کے ساتھ عدم رضا بھی موجود ہے۔
اغماض اور رضا میں فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔
بعض صورتوں میں اظہار ناپسندیدگی کر کے درگزر کی شرعی گنجائش ہوتی ہے، چنانچہ اس عنوان کے تحت امام بخاری ؒ نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔
میت پر رونے اور بین کرنے کا دروازہ کھولنا قطعا مقصود نہیں۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1293
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2816
2816. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میرے والد گرامی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس حالت میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا گیا تھا۔ میں نے ان کے چہرے سے کپڑا اٹھانا چاہا تو میری قوم نے مجھے منع کردیا۔ اس دوران میں آپ ﷺ نے ایک چلانے والی عورت کی آوازسنی اور کہا گیا کہ یہ عمرو کی بیٹی یا اس کی بہن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم کیوں روتی ہو؟یا فرمایاتم اس پر مت رؤو، اس پر تو فرشتوں نے برابر اپنے پروں سے سایہ کررکھا ہے۔“ (امام بخاری کہتے ہیں کہ) میں نے(اپنے شیخ) صدقہ (راوی) سے دریافت کیا: اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں: ”حتیٰ کہ اس کو اٹھا لیا گیا۔“ انھوں (سفیان) نے فرمایا کہ کبھی کبھی (جابر) ان الفاظ کو بھی بیان کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2816]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؓنے اس حدیث سے شہید کی عظمت ثابت کی ہے کہ فرشتے اسے اپنی معیت اور ہمراہی میں لے لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں کا سایہ کردیتے ہیں۔
دوسری روایت میں ہے۔
”شہید کی میت اٹھانے تک فرشتوں نے اس پر سایہ کیے رکھا۔
“ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث 1293)
2۔
”چلانے والی عورت“ ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ تھیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1244)
3۔
واضح رہے کہ صدقہ بن فضل حضرت امام بخاری ؒکے استاد ہیں ان سے امام بخاری ؒنے پوچھا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2816