(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا ابن المنكدر , قال: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , قال:" جيء بابي يوم احد قد مثل به حتى وضع بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سجي ثوبا فذهبت اريد ان اكشف عنه فنهاني قومي، ثم ذهبت اكشف عنه فنهاني قومي، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع فسمع صوت صائحة , فقال: من هذه؟ , فقالوا: ابنة عمرو او اخت عمرو، قال: فلم تبكي او لا تبكي، فما زالت الملائكة تظله باجنحتها حتى رفع".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ , قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" جِيءَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ قَدْ مُثِّلَ بِهِ حَتَّى وُضِعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سُجِّيَ ثَوْبًا فَذَهَبْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي، ثُمَّ ذَهَبْتُ أَكْشِفُ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ فَسَمِعَ صَوْتَ صَائِحَةٍ , فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ , فَقَالُوا: ابْنَةُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو، قَالَ: فَلِمَ تَبْكِي أَوْ لَا تَبْكِي، فَمَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ".
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن منکدر نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد کی لاش احد کے میدان سے لائی گئی۔ (مشرکوں نے) آپ کی صورت تک بگاڑ دی تھی۔ نعش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی۔ اوپر سے ایک کپڑا ڈھکا ہوا تھا ‘ میں نے چاہا کہ کپڑے کو ہٹاؤں۔ لیکن میری قوم نے مجھے روکا۔ پھر دوبارہ کپڑا ہٹانے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی میری قوم نے مجھ کو روک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جنازہ اٹھایا گیا۔ اس وقت کسی زور زور سے رونے والے کی آواز سنائی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عمرو کی بیٹی یا (یہ کہا کہ) عمرو کی بہن ہیں۔ (نام میں سفیان کو شک ہوا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روتی کیوں ہیں؟ یا یہ فرمایا کہ روؤ نہیں کہ ملائکہ برابر اپنے پروں کا سایہ کئے رہے ہیں جب تک اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: On the day of the Battle of Uhud, my father was brought and he had been mutilated (in battle) and was placed in front of Allah's Apostle and a sheet was over him. I went intending to uncover my father but my people forbade me; again I wanted to uncover him but my people forbade me. Allah's Apostle gave his order and he was shifted away. At that time he heard the voice of a crying woman and asked, "Who is this?" They said, "It is the daughter or the sister of `Amr." He said, "Why does she weep? (or let her stop weeping), for the angels had been shading him with their wings till he (i.e. the body of the martyr) was shifted away."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 381
أصيب أبي يوم أحد فجعلت أكشف الثوب عن وجهه وأبكي وجعلوا ينهونني ورسول الله لا ينهاني قال وجعلت فاطمة بنت عمرو تبكيه فقال رسول الله تبكيه أو لا تبكيه ما زالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفعتموه
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1293
حدیث حاشیہ: (1) قبل ازیں ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ رونے والی حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ تھیں۔ (حدیث: 1244) لیکن امام حاکم نے اپنی کتاب الإكليل میں اس کا نام ہند بنت عمرو لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں بہنیں وہاں موجود ہوں یا ایک ہی مراد ہو، مذکورہ نام اس کا لقب ہو یا اس کے دو نام ہوں۔ (فتح الباري: 208/3)(2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے والد گرامی پر فرشتوں کے سایہ کرنے کا ذکر فرمایا کہ اس قدر عظیم منصب کے حصول پر تو خوش ہونا چاہیے نہ کہ اس پر رونے دھونے کی زحمت گوارا کی جائے۔ یہ رونے کا کیا موقع ہے! اس ارشاد مبارک میں اغماض کے ساتھ عدم رضا بھی موجود ہے۔ اغماض اور رضا میں فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ بعض صورتوں میں اظہار ناپسندیدگی کر کے درگزر کی شرعی گنجائش ہوتی ہے، چنانچہ اس عنوان کے تحت امام بخاری ؒ نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ میت پر رونے اور بین کرنے کا دروازہ کھولنا قطعا مقصود نہیں۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1293
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1843
´میت کو ڈھانپنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن میرے والد کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا گیا، اور ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، میں نے ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانا چاہا تو لوگوں نے مجھے روک دیا، (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اٹھانے) کا حکم دیا، انہیں اٹھایا گیا، تو جب وہ اٹھائے گئے تو آپ نے کسی رونے والے کی آواز سنی تو پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ تو لوگوں نے کہا: یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے، آپ نے فرمایا: ”مت روؤ“، یا فرمایا: ”کیوں روتی ہو؟ جب تک انہیں اٹھایا نہیں گیا تھا فرشتے انہیں برابر سایہ کئے ہوئے تھے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1843]
1843۔ اردو حاشیہ: ➊ ”عمرو کی بیٹی“ اس صورت میں یہ جابر کے شہید والد کی بہن تھیں اور اگر وہ عمرو کی بہن تھیں تو جابر کے والد کی پھوپھی تھیں۔ پہلی بات صحیح ہے کہ وہ شہید کی بہن تھیں ……… رضی اللہ عنہا ……… دراصل یہ کسی راوی کو شک ہے کہ وہ عمرو کی بیٹی تھی یا عمرو کی بہن۔ ➋ ”سایہ کیے رکھا“ مطلب یہ ہے کہ اتنے شرف والی شہادت پر آہ و زاری مناسب نہیں، اگرچہ دل اور آنکھیں تو غم کرتے ہیں۔ ➌ وفات کے بعد میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ اگر موت کی وجہ سے اس کے چہرے وغیرہ میں کوئی تغیر آیا ہو تو نظر نہ آئے۔ غسل و تکفین کے بعد جب اسے صاف ستھرا کر کے حتی الامکان خوب صورت بنا دیا جاتا ہے، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے چہرہ دیکھنے کے لیے رکھ جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور میں کسی قسم کے تغیر کا امکان نہیں تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غسل و تکفین سے پہلے بھی آپ کو دیکھا اور بوسہ دیا ……… رضی اللہ عنہ ………۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1843
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1298
1298- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے موقع پر میرے والد شہید ہوگئے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا ان کی میت کی بت حرمتی کی گئی تھی میں نے ان چہرے سے کپڑا ہٹا نے کا ارادہ کیا، تو میری قوم کے افراد نے مجھے منع کردیا میں ان کے منہ سے کپڑا ہٹانا چاہ رہا تھا، لیکن میری قوم کے افرا مجھے منع کررہے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے اٹھا لیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے کی آواز سنی تو دریافت کیا: ”یہ کون ہے“؟ لوگوں نے بتایا: عمرو کی صاحبزاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1298]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہید پر رونا نہیں چاہیے، اللہ تعالیٰ ٰ نے بہن اور بھائی میں فطری محبت رکھی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہم تک دین پہنچایا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1297
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6355
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6355]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی قوم، لاش سے کپڑا ہٹانے سے روک رہی تھی کہ یہ حالت دیکھ کر زیادہ غم و حزن کا شکار ہوں گے اور زیادہ روئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے نہیں روک رہے تھے کہ اس طرح رکاوٹ اور ان سے غم و حزن میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دیکھ کر کچھ تسلی ہو جاتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہانا دل کے غم کو ہلکا کرتا ہے، اس لیے شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6355
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6355
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6355]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی قوم، لاش سے کپڑا ہٹانے سے روک رہی تھی کہ یہ حالت دیکھ کر زیادہ غم و حزن کا شکار ہوں گے اور زیادہ روئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے نہیں روک رہے تھے کہ اس طرح رکاوٹ اور ان سے غم و حزن میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دیکھ کر کچھ تسلی ہو جاتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہانا دل کے غم کو ہلکا کرتا ہے، اس لیے شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6355
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1244
1244. حضرت جابر ؓ بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میرے والد جب (غزوہ احد میں) شہید ہوئے تو میں بار بار ان کے چہرے سے پردہ ہٹاتا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ مجھے منع نہیں فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ بھی رونے لگی تو نبی کریم ﷺ نےفرمایا:”تو رو یا نہ رو، فرشتے تو ان پر اپنے پروں کا سایہ کیے رہے حتیٰ کہ تم نے انھیں اٹھالیا۔“ ابن جریج نے شعبہ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے کہا:مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1244]
حدیث حاشیہ: منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کافروں نے حضرت جابر ؓ کے والد کو قتل کر کے ان کے ناک کان بھی کاٹ ڈالے تھے۔ ایسی حالت میں صحابہ نے یہ مناسب جانا کہ جابر ؓ ان کو نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا تاکہ ان کو مزید صدمہ نہ ہو۔ حدیث سے نکلا کہ مردے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے جابر کو منع نہیں فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1244
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1244
1244. حضرت جابر ؓ بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میرے والد جب (غزوہ احد میں) شہید ہوئے تو میں بار بار ان کے چہرے سے پردہ ہٹاتا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ مجھے منع نہیں فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ بھی رونے لگی تو نبی کریم ﷺ نےفرمایا:”تو رو یا نہ رو، فرشتے تو ان پر اپنے پروں کا سایہ کیے رہے حتیٰ کہ تم نے انھیں اٹھالیا۔“ ابن جریج نے شعبہ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے کہا:مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1244]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت جابر ؓ کے والد گرامی جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور مشرکین نے ان کے ناک اور کان وغیرہ کاٹ کر ان کا مثلہ کر دیا تھا۔ حضرت جابر ؓ کا ان کے چہرے سے بار بار پردہ اٹھا کر رونا اس بنا پر تھا۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ میت کو کفن میں لپیٹ دینے کے بعد اسے دیکھا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض رونا، جس میں نوحہ نہ ہو، ممنوع نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق جنتی ہونے کا فیصلہ فرمایا، کیونکہ فرشتوں کا اپنے پروں سے سایہ کرنا جنتی ہونے کی علامت ہے۔ نبی ﷺ کے فیصلے کی بنیاد وحی تھی۔ اپنے ظن و تخمین سے کسی کے متعلق جنتی ہونے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن جریج کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 150/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1244
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2816
2816. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میرے والد گرامی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس حالت میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا گیا تھا۔ میں نے ان کے چہرے سے کپڑا اٹھانا چاہا تو میری قوم نے مجھے منع کردیا۔ اس دوران میں آپ ﷺ نے ایک چلانے والی عورت کی آوازسنی اور کہا گیا کہ یہ عمرو کی بیٹی یا اس کی بہن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم کیوں روتی ہو؟یا فرمایاتم اس پر مت رؤو، اس پر تو فرشتوں نے برابر اپنے پروں سے سایہ کررکھا ہے۔“(امام بخاری کہتے ہیں کہ) میں نے(اپنے شیخ) صدقہ (راوی) سے دریافت کیا: اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں: ”حتیٰ کہ اس کو اٹھا لیا گیا۔“ انھوں (سفیان) نے فرمایا کہ کبھی کبھی (جابر) ان الفاظ کو بھی بیان کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2816]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؓنے اس حدیث سے شہید کی عظمت ثابت کی ہے کہ فرشتے اسے اپنی معیت اور ہمراہی میں لے لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں کا سایہ کردیتے ہیں۔ دوسری روایت میں ہے۔ ”شہید کی میت اٹھانے تک فرشتوں نے اس پر سایہ کیے رکھا۔ “(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث 1293) 2۔ ”چلانے والی عورت“ ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ تھیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1244) 3۔ واضح رہے کہ صدقہ بن فضل حضرت امام بخاری ؒکے استاد ہیں ان سے امام بخاری ؒنے پوچھا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2816