1217 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا الزهري، انه سمع انس بن مالك، يقول: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «لا تقاطعوا ولا تدابروا، ولا تباغضوا، ولا تحاسدوا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث» فقيل لسفيان فيه: «ولا تناجشوا؟» ، قال: لا1217 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ» فَقِيلَ لِسُفْيَانَ فِيهِ: «وَلَا تَنَاجَشُوا؟» ، قَالَ: لَا
1217- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”آپس میں قطع رحمی نہ کرو، آپس میں ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، اللہ کے بندے اور بھائی، بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے، وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلق رہے“۔ سفیان نامی راوی سے دریافت کیا گیا: اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ”آپس میں مصنوعی بولی نہ لگاؤ“، تو انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6065، 6076، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2559، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4910، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1935، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14891، 21123، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12256، 12888، 13253، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3261، 3549، 3550، 3551»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1217
فائدہ: اس حدیث میں بعض چیزوں سے منع کیا گیا ہے، اور ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے، حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی پر نعمت دیکھ کر یہ کہنا یا سوچنا کہ اس سے نعمت چھن جائے، اور مجھے مل جائے اور یہ حرام ہے، اور جس روایت میں آتا ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے، وہ روایت سخت ضعیف ہے۔ [سنن ابن ماجه: 4210 اس كي سند ميں عيسي بن ابي عيسي متروك هے نيز ديكهيے الضعيفه: 1901] نیز اس حدیث میں تین دن سے زیادہ کسی کو نہ بلانے کی مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں پر ایک اہم نکتہ یاد رہے کہ اس سے مراد ہے کہ جو دو لوگ آپس میں لڑ پڑیں، ان کی آپس میں ملاقات ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کو نہ بلائیں، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دو لوگ آپس میں لڑ پڑیں اور ان کی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یہ مراد نہیں ہے، اس طرح خواہ دس دن گزر جائیں نیز یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر کسی سے ناراض ہو جانا اور وہ ناراضگی پوری زندگی رکھ لینا جب تک دوسرا دین کی طرف نہ آئے یہ درست ہے، کیونکہ یہ ناراضگی اللہ کے لیے ہے، اور دوسرے انسان کی بھلائی کی خاطر ہے، بلکہ یہ ناراضگی باعث اجر ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1215
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 602
´نیکی کے کاموں میں رشک اور نیکی میں مسابقت جائز ہے` «. . .قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تباغضوا ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال . . .» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور آپس میں حسد نہ کرو اور ایک دوسرے کی طرف (ناراضی سے) پیٹھ نہ پھیرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ بائیکاٹ کرے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 602]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييي 907/2 ح 748 ك 47 ب 4 ح 14، التمهيد 115/6، الاستذكار: 1680، أخرجه البخاري 6076، ومسلم 2559، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے بغض رکھنا، حسد اور بائیکاٹ کرنا حرام ہے لیکن دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔ کفار، مشرکین، اہل بدعت و ضلالت اور منکرین دین اسلم سے نفرت و بغض رکھنا اور بائیکاٹ کرنا واجب ہے جیسا کہ دیگر دلائل سے ثابت ہے بلکہ بعض اوقات گناہگار مسلمانوں سے بھی بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔ ➋ نیکی کے کاموں میں رشک اور نیکی میں مسابقت جائز ہے۔ ➌ تین صحابہ کرام غزوہ تبوک سے بغیر شرعی عذر کے پیچھے رہ گئے تو ان سے پچاس دن تک بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [سورة التوبه: 118، صحيح بخاري 4418، صحيح مسلم 2769] ➍ منکرین تقدیر (اہل بدعت) کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ [صحيح مسلم: 8 ترقيم دارالسلام: 93] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2152 وسنده حسن سقال الترمذي: ”هٰذا حديث حسن صحيح“]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 4
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4910
´مسلمان بھائی سے ترک تعلق کیسا ہے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ (یعنی ملاقات ترک نہ کرو) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4910]
فوائد ومسائل: تین دن رات سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا اس صورت میں ناجائز اور حرام ہے، جب محض اپنی ذات کے لیے ہو۔ اگر اللہ تعالی کے لیئے ہو تو یہ مشروع، محبوب اور ممدوح ہے۔ امام ابو داؤد ؒ نے حدیث: 4916 کے آخر میں اس مسئلے کی وضاحت کر دی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4910
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1935
´حسد کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس میں قطع تعلق نہ کرو، ایک دوسرے سے بےرخی نہ اختیار کرو، باہم دشمنی و بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1935]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اسلام نے مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس کی بہتری کا خاص خیال رکھا ہے، اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق بھی اصلاح معاشرہ اور سماج کی سدھار سے ہے، صلہ رحمی کا حکم دیاگیا ہے، ہاہمی بغض و عناد اور دشمنی سے باز رہنے کو کہاگیا ہے، حسد جومعاشرہ کے لیے ایسی مہلک بیماری ہے جس سے نیکیاں جل کر راکھ ہوجاتی ہیں، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1935
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6065
6065. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6065]
حدیث حاشیہ: اللہ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقدس وعظ ہے، جو اس قابل ہے کہ ہر وقت یاد رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اس صورت میں یقینا امت کا بیڑا پار ہو سکے گا۔ اللہ سب کو ایسی ہمت عطا کرے آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6065
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6065
6065. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6065]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے باہمی حسد اور آپس میں قطع تعلقی کو بیان کیا ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسد ایک انتہائی بری خصلت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور اس پر راضی نہ رہنے کی وجہ سے آتی ہے کیونکہ کسی کے پاس اللہ کی نعمت دیکھ کر جلنے کا نام حسد ہے۔ (2) حسد کے بعد انسان میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں افراد، خاندانوں اور قوموں کی تباہی کا باعث ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے سے روگردانی کرنا اور پیٹھ پھیرنا بھی شریعت کو پسند نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے: ”جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے روابط توڑے رکھے تو وہ ایسے ہے جیسے اس کا خون بہا دیا ہو۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4915) اگر کہیں شکر رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی منقطع کر لینا جائز نہیں، ہاں اگر مزید تعلقات بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام دعا سے بخل نہیں کرنا چاہیے۔ (3) یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب کسی دنیاوی غرض سے یا اپنی ذات کے لیے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو ایسا کرنا اللہ کو محبوب ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے تحت فرمایا ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے چالیس دن تک میل جول چھوڑ دیا تھا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مرتے دم تک اپنے بیٹے سے بائیکاٹ کیے رکھا تھا۔ “(سنن أبي داود، الأدب، تحت حدیث4916)(4) بہرحال سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے بائیکاٹ کا گناہ ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ سلام کہنے کے بعد اگر وہ جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے اور اگر وہ سلام کا جواب نہ دے تو سلام کرنے والا اس بائیکاٹ کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 414)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6065