1184 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: سعد الطائي ابو مجاهد: سمعته منه وانا غلام، عن ابي مدلة، عن ابي هريرة، قال: يا رسول الله إنا إذا كنا عندك كانت قلوبنا علي حال، فإذا خرجنا من عندك كانت علي غير تلك الحال، قال: فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «لو كنتم إذا خرجتم من عندي مثلكم إذا كنتم عندي، لصافحتكم الملائكة» قال: وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «بناء الجنة لبنة من ذهب، ولبنة من فضة، وملاطها المسك الاذفر، وحصباؤها اللؤلؤ والزبرجد والياقوت» وذكر حديثا فيه طول1184 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: سَعْدٌ الطَّائِيُّ أَبُو مُجَاهِدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ وَأَنَا غُلَامٌ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ كَانَتْ قُلُوبُنَا عَلَي حَالٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ كَانَتْ عَلَي غَيْرِ تِلْكَ الْحَالِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُمْ إِذَا خَرَجَتُمْ مِنْ عِنْدِي مِثْلَكُمْ إِذَا كُنْتُمْ عِنْدِي، لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِنَاءُ الْجَنَّةِ لَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَلَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ، وَمِلَاطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ، وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالزَّبَرْجَدُ وَالْيَاقُوتُ» وَذَكَرَ حَدِيثًا فِيهِ طُولٌ
1184- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ہوتے ہیں، تو ہمارے دلوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے لیکن جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں، تو ہماری حالت تبدیل ہوجاتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہو اس وقت بھی اگر تمہاری حالت اسی کی مانند ہو جس طرح اس وقت ہوتی ہے جب تم میرے پاس موجود ہوتے ہو، تو فرشتے تمہارے ساتھ مصافحہ کرنا شروع کردیں“۔ راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جنت کی تعمیریوں کی گئی ہے کہ ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک اینٹ چاندی کی ہے اور اس کا گار ا مشک ازفر کا ہے اور اس کی کنکریاں لؤلؤ، زبرجد اور یاقوت کی ہیں“۔ اس کے بعد راوی نے طویل حدیث ذکر کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2570، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1901، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 874، 3428، 7387، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7717، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2526، 3598، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2863، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1752، 4248، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6484، 16745، 20220، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8158، 8159»
ثلاثة لا ترد دعوتهم الإمام العادل الصائم حتى يفطر دعوة المظلوم يرفعها الله دون الغمام يوم القيامة وتفتح لها أبواب السماء ويقول بعزتي لأنصرنك ولو بعد حين
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1184
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دلوں کی کیفیت بدلتی رہتی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ۔ ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے، ہمیشہ انسان کو اچھے ماحول میں رہنا چاہیے، تا کہ اس کا دل ایمان کی مٹھاس سے لبریز رہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو ہمیشہ ایمان سے رہتا ہے، اچھی بات کرتا ہے، تو فرشتے بھی اس کو پسند کرتے ہیں، اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سونا چاندی اور کستوری بہت قیمتی چیزیں ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجلس اکٹھی کر کے دینی باتیں سمجھنی سمجھانی چاہئیں
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1182
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1752
´روزہ دار کی دعا رد نہ ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1752]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) روزہ کھولنے کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہے اس لئے اس مو قع پر اپنے لئے اور اپنے اہل و عیا ل کے لئے خیرو برکت اور ضرورت پوری ہونے کی دعا کرنا مناسب ہے۔
(2) ظلم سےپرہیز کرنا انتہائی ضروری ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن جائے گا (صحیح البخاري، المظالم، باب الظلم ظلمات یوم القیامة، حدیث: 2447)
(3) مظلو م کی دعا سے مراد ظالم کے خلا ف بد دعا ہے یا ظلم سے نجات کے لئے اللہ سے دعا ہے۔
(4) بادل سے مراد وہ بادل ہے جواس آیت مبا رکہ میں مذکور ہے۔ ﴿وَيَوْمَ تَشَقَّقُ ٱلسَّمَآءُ بِٱلْغَمَـٰمِ وَنُزِّلَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ تَنزِيلًا﴾(الفرقان، 25: 25) ”جس دن بادلوں کے ساتھ آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے پے در پے نیچے اتارے جا ئیں گے۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1752
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2526
´جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آخر کیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں، لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اور ان میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہوا پاتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت و کیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کو پیدا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2526]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مفہوم یہ ہے کہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتا ہے، لیکن وہ لوگ اللہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کرکے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑ گڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اللہ کو گناہ کا ارتکاب کرنا پسند ہے، بلکہ اس حدیث کا مقصد تو بہ و استغفار کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔
نوٹ: (مؤلف نے اس سند کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے، سند میں زیاد الطائی مجہول راوی ہے، جس نے ابوہریرہ سے مرسل روایت کی ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت فرمائی، پھر ابومدلہ کی روایت کا ذکر کیا، جو ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کے اکثر فقرے ثابت ہیں، حافظ ابن حجر نے ابومدلہ مولی عائشہ کو مقبول کہا ہے، حدیث میں مما خلق الخلق کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، نیز ثلاث لا ترد...آخر حدیث تک بھی ضعیف ہے (ضعیف الجامع 2592، والضعیفة 1359)، لیکن حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم (التوبة: 2 /2749)، ترمذی (2514، 2452)، ابن ماجة (4236) اور مسند أحمد (4/187، 346) میں حنظلہ الاسیدی سے مروی ہے اور دوسرے فقرہ ولو لم تذنبوا کی مختلف طرق سے البانی نے تخریج کرکے اس کی تصحیح کی ہے: الصحیحة رقم 967، 968، 969، 970 و 1950، 1951، 1965) اور الجنة بناؤها لبنة...ولا يفنى شبابهم کا فقرہ بھی حسن ہے (السراج المنیر8083)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2526
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3598
´دنیا و آخرت میں عافیت طلبی کا بیان` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔“[سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3598]
اردو حاشہ: نوٹ: (”اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ“ کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ”اَلمُسَافِرُ“ کے لفظ سے صحیح ہے، سند میں ابومدلہ مولی عائشہ'' مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں ”اَلمُسُافِرُ“ کا لفظ ہے کے خلاف ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 1358، والصحیحة رقم: 596)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3598