1175 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ايوب السختياني، قال: اخبرنا عكرمة، قال: الا اخبركم باشياء قصار سمعناها من ابي هريرة، قال: «نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم ان يشرب من في السقاء» 1175 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ، قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَشْيَاءَ قِصَارٍ سَمِعْنَاهَا مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «نَهَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُشْرَبَ مِنْ فِي السِّقَاءِ»
1175- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ مشکیزہ کے منہ سے (منہ لگا کے) پانی پیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5627، 5628، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1609، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 515، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7306، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3634، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1353، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2164، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2335، 3420، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11491، 11492، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7274، 7275، 7398، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6249، 6309»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1175
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بڑے برتن مثلا گھڑا، پتیلہ غرض کہ ہر بڑے برتن کے ساتھ منہ لگا کر پانی نہیں پینا چاہیے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پانی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1173
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 463
´صحیح احادیث بیان کرتے رہنا مومن کی شان ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يمنع احدكم جاره ان يغرز خشبة فى جداره.“ قال: ثم يقول ابو هريرة: مالي اراكم عنها معرضين، والله لارمين بها بين اكتافكم . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی بھی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔“(عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج نے) کہا: پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرے ہوئے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم! میں اسے تمہارے کندھوں کے درمیان ضرور پھینکوں گا یعنی میں اسے تمہارے درمیان مشہور کروں گا . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 463]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2463، ومسلم 136/1609، من حديث مالك به]
تفقه ➊ اس حدیث میں دیوار پر لکڑی رکھنے کی اجازت کا حکم وجوب پر نہیں بلکہ استحباب پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی (مسلمان بھائی) کا مال اس کی مرضی کے بغیر حلال نہیں ہے۔“[مسند أحمد 5/425 ح23605 أ، وسنده صحيح] نیز دیکھئے: [التمهيد [10/222] ➋ اگر پڑوسی کے شر کا اندیشہ ہو کہ بعد میں وہ اس دیوار پر قبضہ کر لے گا تو پھر اپنی دیوار بچانے کے لئے اسے لکڑی رکھنے سے منع کیا جا سکتا ہے کیونکہ اپنا مال بچانا بھی دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ ➌ لوگ خوش ہوں یا نا خوش، صحیح احادیث بیان کرتے رہنا مومن کی شان ہے۔ ➍ صحیح بات کی تائید میں قسم کھانا صحیح ہے۔ ➎ یہ عین ممکن ہے کہ ایک حدیث یا آیت کا مفہوم بعض لوگوں کو سمجھ نہ آئے لہذا انہیں علمائے حق کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔ ➏ اس حدیث سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حق گوئی و بیباکی واضح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 82
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 736
´صلح کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔“ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس پر عمل پیرا ہونے سے گریز کرتے دیکھ رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں تو اسے تمہارے کندھوں پر ماروں گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 736»
تخریج: «أخرجه البخاري، المظالم، باب لا يمنع جار جاره أن يغرز خشبة في جداره، حديث:2463، ومسلم، المساقاة، باب غرر الخشبة في جدار الجار، حديث:1609.»
تشریح: اس حدیث میں ایک ہمسائے کے دوسرے ہمسائے پر حقوق کی نشان دہی ہوتی ہے کہ تعمیرات کے موقع پر ایک دوسرے سے تعاون و معاونت کریں۔ اور یہ بھی حق ہمسائیگی میں سے ہے کہ ہمسایہ ہمسائے کی دیوار پر اپنا شہتیر یا اپنا لینٹر رکھنا چاہے تو اسے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے بشرطیکہ دیوار اس قابل ہو۔ امام احمد اور اسحاق رحمہما اللہ کے نزدیک تو یہ حکم واجب ہے۔ نہ رکھنے دے گا تو گناہ گار ہوگا اور اگر ہمسایہ معاف نہ کرے تو اس گناہ کی سزا عنداللہ پا کر رہے گا۔ اور باقی ائمہ کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے‘ مگر امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایسے لوگوں پر شدید انکار اس کا مؤید ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 736
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3634
´قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے“ یہ سن کر لوگوں نے سر جھکا لیا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا بات ہے جو میں تمہیں اس حدیث سے اعراض کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں تو اسے تمہارے شانوں کے درمیان ڈال ہی کر رہوں گا (یعنی اسے تم سے بیان کر کے ہی چھوڑوں گا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن ابی خلف کی حدیث ہے اور زیادہ کامل ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3634]
فوائد ومسائل: فائدہ: ہمسائیگی کے لازمی حقوق میں سے یہ ہے کہ احسان کا معاملہ کرتے ہوئے درمیانی دیوار پر شہتیر یا کڑیاں رکھنے اور کھونٹی گاڑنے سے ہرگز نہ روکا جائے۔ مگر بنیادی شرط یہ ہوگی کہ کوئی کسی کےلئے ضرر اور ظلم کا باعث نہ بنے۔ ظالم لوگ اس رعایت کی بنا پر حق ملکیت کا دعوی کرنے لگے ہیں۔ درج ذیل روایت ملاحظہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3634
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2335
´پڑوسی کی دیوار پر دھرن (شہتیر) رکھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار پر شہ تیر (دھرن یا کڑی) رکھنے کی اجازت مانگے، تو اس کو منع نہ کرے“، جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث لوگوں سے بیان کی تو لوگوں نے اپنے سروں کو جھکا لیا، یہ دیکھ کر ابوہریرہ رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیوں، کیا ہوا؟ میں دیکھتا ہوں کہ تم اس حدیث سے منہ پھیر رہے ہو، اللہ کی قسم! میں تو اس کو تمہارے شانوں کے درمیان مار کر رہوں گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2335]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) دیوار میں لکڑی گاڑنے سے مراد یا تو کھونٹی وغیرہ گاڑنا ہے یا اس سے مراد دیوار پر شہتیر وغیرہ رکھ کر چھت ڈالنا ہے۔
(2) کندھوں پر مارنے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم پسند کرو یا نہ کرو میں تمہیں یہ شرعی حکم سناتا رہوں گا اور تمہیں اس پر عمل کرنا پڑے گا۔
(3) بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب تبلیغ میں غصے کا اظہار کرنا درست ہوتا ہے یعنی جب یہ محسوس کیا جائے کہ سامعین پر غصے کا اثر زیادہ ہو گا تو یہ طریقہ بھی درست ہے لیکن اسے عام عادت بنالینا مناسب نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2335
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1107
1107- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کسی شخص سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار میں اپنا شہتیر گاڑنے کے لیے اجازت مانگے، تو وہ اسے منع نہ کرے۔“ راوی بیان کرتے ہیں: جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو یہ حدیث سنائی، تو انہوں نے اپنے سر جھکا لیے۔ تو انہوں نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں تم لوگ اعراض کررہے ہو؟ اللہ کی قسم! میں تمہارے کندھوں کے درمیان پٹائی کروں گا۔ سفیان کہتے ہیں: میں نے امام زہری سے جس جگہ یہ روایت سنی تھی وہ جگہ بھی مجھے یاد ہے۔ انہوں نے اس میں صرف اعرج کا تذکرہ کیا تھا انہوں نے سعید ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1107]
فائدہ: اس حدیث میں بیان ہے کہ ہمسائے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت کا گاڈر وغیرہ آپ کی اجازت لینے کے بعد آپ کی دیوار پر رکھ سکتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ کس قدر زیادہ قرآن و حدیث پرعمل کرتے اور کرواتے تھے، کیونکہ وہ والی تھے، اس لیے انہوں نے انداز سخت رکھا اور اس سے بڑھ کر وہ حدیث کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس حدیث میں مسلمانوں کو آپس میں صلۂ رحمی کا درس دیا گیا ہے لیکن بعض علاقوں میں اس حدیث پر ماشاء اللہ بہت زیادہ عمل ہے، لیکن بعض علاقوں میں اس کی بہت زیادہ مخالفت ہے، اصل میں موجودہ دور میں دھوکا عام ہے، جو کسی کی دیوار پر گاڈر رکھ لے کل کو وہ اس دیوار کا مالک ہونے کا دعوی کر دیتا ہے، اوریہ ا نداز غلط ہے، اور حرام چیز کا حصول ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1107
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2463
2463. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کوئی پڑوسی دوسرےپڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: کیا بات ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روگردانی کرتے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم!میں یہ حدیث تم سے بیان کرتا رہوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2463]
حدیث حاشیہ: یا ایک کڑی لگانے سے، کیوں کہ حدیث میں دونوں طرح بصیغہ جمع اور بصیغہ مفرد منقول ہے۔ امام شافعی ؓ نے کہا کہ یہ حکم استحبابا ہے ورنہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہمسایہ کی دیوار پر اس کی اجازت کے بغیر کڑیاں رکھے۔ مالکیہ اور حنفیہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمد اور اسحق اور اہل حدیث کے نزدیک یہ حکم وجوباً ہے اگر ہمسایہ اس کی دیوار پر کڑیاں لگانا چاہئے تو دیوار کے مالک کو اس کا روکنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں اور دیوار مضبوط ہوتی ہے۔ گو دیوار میں سوراخ کرنا پڑے۔ امام بیہقی نے کہا، شافعی ؒ کا قول قدیم یہی ہے اور حدیث کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتا اور یہ حدیث صحیح ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2463
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2463
2463. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کوئی پڑوسی دوسرےپڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: کیا بات ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روگردانی کرتے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم!میں یہ حدیث تم سے بیان کرتا رہوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2463]
حدیث حاشیہ: (1) معلوم ہوا کہ اگر ہمسایہ دیوار پر کوئی لکڑی یا گاڈر وغیرہ رکھنا چاہتا ہے تو دیوار کے مالک کے لیے روکنا جائز نہیں کیونکہ اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ ایسا کرنے سے دیوار مضبوط ہو جاتی ہے، ہاں دیوار کی توڑ پھوڑ جائز نہیں کیونکہ کسی کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ دیوار بناتے ہوئے اسے جگہ اور اخراجات کے اعتبار سے مشترکہ رکھا جائے تاکہ فریقین کا اس میں فائدہ ہو۔ اگر اکیلا آدمی اسے ایک اینٹ موٹی بنانا چاہتا ہے تو مشترکہ ڈیڑھ اینٹ، یعنی ساڑھے تیرہ (131/2) انچ موٹی بنائی جائے۔ بہرحال اگر دیوار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو ہمسایہ دیوار استعمال کرنے سے نہ روکے، اس پر شہتیر یا گارڈر رکھنے کی اجازت خوشی سے دے دے۔ (2) حدیث کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کا دھمکی آمیز بیان منقول ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب وہ مروان کے دورِ حکومت میں مدینہ طیبہ کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ اس میں ان کی ناراضی کا اظہار ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2463