فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2628
´حج کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا حج کیا، نہ بیہودہ بکا ۱؎ اور نہ ہی کوئی گناہ کیا، تو وہ اس طرح (پاک و صاف ہو کر) ۲؎ لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2628]
اردو حاشہ:
(1) گویا اس کے سب صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ حقوق العباد کا مسئلہ مختلف ہے کیونکہ ان کی معافی تو متعلقین ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ متعلقہ شخص کو اپنی طرف سے دے کر راضی کر دے تو اللہ کی رحمت سے بعید نہیں اور نہ اس پر کوئی اعتراض ہی ہے۔
(2) فسق ویسے تو ہر حال میں منع ہے لیکن حج میں بطور خاص منع کیا گیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2628
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2889
´حج اور عمرہ کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا، اور نہ (ایام حج میں) جماع کیا، اور نہ گناہ کے کام کئے، تو وہ اس طرح واپس آئے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بے ہودہ گوئی سے مراد فحش کلمات یا فحش حرکات ہیں۔
حج کے سفر میں جب خاوند اپنی بیوی سے بے تکلفی والی ایسی حرکت نہیں کرسکتا جو عام حالات میں اس کے لیے جائز ہے تو اجنبی عورت کی طرف غلط نگاہ سے دیکھنا اس کے لیے کیوں کر جائز ہوگا؟
(2)
احرام کھولنے کے بعد مرد کے لیے بیوی کے ساتھ اختلاط جائز ہوتا ہے۔
(3)
انسان گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔
اور بالغ ہونے تک اس کے گناہ نہیں لکھے جاتے۔
یہود ونصاری کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ انسان گناہ گار پیدا ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2889
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 811
´حج و عمرہ کے ثواب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہیودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا ۱؎ تو اس کے گزشتہ تمام گناہ ۲؎ بخش دئیے جائیں گے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 811]
اردو حاشہ:
1؎:
رفث کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں،
یہاں مراد فحش گوئی اور بے ہودگی کی باتیں کرنی اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے،
حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائز نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر اس سے گفتگو بھی نا پسندیدہ ہے،
اور فسق سے مراد اللہ کی نا فرمانی ہے،
اور جدال سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑا ہے،
دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔
2؎:
اس سے مراد وہ صغیرہ (چھوٹے) گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے،
رہے بڑے بڑے گناہ اور وہ چھوٹے گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں تو وہ توبہ حق کے ادا کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 811
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1521
1521. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص محض اللہ کے لیے حج کرے، پھر کسی گناہ کا مرتکب ہو، نہ فحش کام کرے اور نہ ہی فسق وفجور میں مبتلا ہو تو وہ ایسے گناہوں سے پاک واپس ہوگا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1521]
حدیث حاشیہ:
حدیث بالا میں لفظ مبرور سے مراد وہ حج جس میں ریا کاری کا دخل نہ ہو، خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو جس میں ازاول تا آخر کوئی گناہ نہ کیا جائے اور جس کے بعد حاجی کی پہلی حالت بدل کر اب وہ سراپا نیکیوں کا مجسمہ بن جائے۔
بلاشک اس کا حج حج مبرور ہے۔
حدیث مذکور میں حج مبرور کے کچھ اوصاف خود ذکر میں آگئے ہیں، اسی تفصیل کے لئے حضرت امام اس حدیث کو یہاں لائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1521
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1819
1819. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جس نے اس گھر کا حج کیا، اس دوران میں بیوی سے جماع نہ کیا اور نہ گناہ ہی کی کوئی بات کی وہ اس طرح واپس ہوگا جیسے ابھی اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1819]
حدیث حاشیہ:
یعنی تمام گناہوں سے پاک ہو کر لوٹے گا۔
قرآن مجید میں رفث کا لفظ ہے۔
رفث جماع کو کہتے ہیں یا جماع کے متعلق شہوت انگیز باتیں کرنے کو (فحش کلام کو)
سفر حج سراسر ریاضت و مجاہدہ (نفس کشی کا سفر)
ہے۔
لہٰذا اس میں جماع کرنے بلکہ جماع کی باتیں کرنے سے شہوت برانگیختہ ہو ان سے پرہیز لازم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1819
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1820
1820. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اور شہوانی چھیڑا چھاڑ کی نہ بد کرداری ہی کا مرتکب ہواتو وہ گناہوں سے ایسا صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1820]
حدیث حاشیہ:
باب کی حدیث میں جھگڑے کا ذکر نہیں ہے، اس کے لیے امام بخاری نے آیت پر اکتفا کیا اور فسق کی مذمت کے لیے حدیث کو نقل فرمایا، بس آیت اور حدیث ہر دو کو ملا کر آپ نے مضمون باب کو مدلل فرمایا اس سے حضرت امام ؒ کی دقت نظر بھی ثابت ہوتی ہے۔
صد افسوس ان لوگوں پر جو ایسے بابصیرت امام کی فقاہت اور فراست سے انکار کریں اور اس وجہ سے ان کی تنقیص کرکے گنہگار بنیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1820
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1521
1521. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص محض اللہ کے لیے حج کرے، پھر کسی گناہ کا مرتکب ہو، نہ فحش کام کرے اور نہ ہی فسق وفجور میں مبتلا ہو تو وہ ایسے گناہوں سے پاک واپس ہوگا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1521]
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بچہ پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک ہوتا ہے حج کے بعد بھی تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے، اسی طرح وہ حقوق اللہ بھی معاف نہیں ہوں گے جو اس نے اپنے ذمے لیے تھے، مثلا:
نذر اور کفارہ وغیرہ، لیکن انھیں پورا نہ کرسکا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ (البقرة: 197: 2)
”حج کے مہینے معروف ہیں، جو شخص ان میں حج کا عزم کرے اس کےلیے دوران حج میں نہ جنسی چھیڑ چھاڑ جائز ہے نہ بد کرداری اور نہ لڑائی جھگڑا۔
“ لیکن اس حدیث میں جدال کا ذکر نہیں فرمایا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جدال، یعنی لڑائی جھگڑے کا گناہ ہونا انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔
اگر احکام حج کے متعلق حق کی حمایت اور اس کے اظہار میں مجادلہ کرتا ہے تو اس قسم کا جدال حاجی کے لیے گناہوں کی بخشش میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور اگر باطل کی حمایت میں مجادلہ کرتا ہے تو لفظ رفث اسے شامل ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 482/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1521
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1819
1819. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جس نے اس گھر کا حج کیا، اس دوران میں بیوی سے جماع نہ کیا اور نہ گناہ ہی کی کوئی بات کی وہ اس طرح واپس ہوگا جیسے ابھی اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1819]
حدیث حاشیہ:
دوران حج میں فسق و فجور، جنگ و جدال اور شہوانی افعال سے پرہیز کرنے والا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
اس کے چھوٹے بڑے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق امور بھی ساقط ہو جاتے ہیں، البتہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے جب تک صاحب حق کو راضی نہ کر لیا جائے۔
واضح رہے کہ مذکورہ امور سے پرہیز کرنا احرام کے بغیر بھی ضروری ہے، البتہ دوران حج میں ایسے امور زیادہ برے ہیں جیسا کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے لیکن دوران نماز میں ریشم زیب تن کرنا زیادہ قبیح اور انتہائی برا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1819
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1820
1820. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اور شہوانی چھیڑا چھاڑ کی نہ بد کرداری ہی کا مرتکب ہواتو وہ گناہوں سے ایسا صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1820]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہر وہ حرکت یا کلام جو انسان کو شہوت پر اُکسائے رفث کہلاتا ہے۔
اس سے مراد جماع وغیرہ ہے۔
(2)
سنن ترمذی کی روایت میں ہے:
”اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
“ (جامع الترمذي، الحج، حدیث: 811)
صحیح مسلم میں ہے:
”جو اس گھر کو آتا ہے۔
“ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3291(1350)
ان الفاظ میں عموم پایا جاتا ہے جو حج اور عمرہ دونوں کو شامل ہے۔
اگر حج کے لغوی معنی مراد لیے جائیں تو اس سے عموم مراد لیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 27/4)
واضح رہے کہ بعض لوگوں کی عبادات کفارے کا سبب بنتی ہیں جبکہ بعض حضرات کی عبادات کفارہ نہیں ہوتیں کیونکہ بہت سے نیند کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کا اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام ہوتا ہے جبکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ آدھی رات سے عبادت کرنا ان کے لیے بےکار ہوتا ہے، انہیں بیداری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
(3)
اس حدیث میں جھگڑے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے جبکہ عنوان میں اس کا ذکر موجود ہے۔
امام بخاری ؒ نے فسق کی مذمت کے لیے حدیث ذکر فرمائی اور جدال، یعنی لڑائی جھگڑے کی مذمت کے لیے صرف آیت کریمہ پر اکتفا کیا، یعنی آیت اور حدیث دونوں کو ملا کر عنوان کو ثابت کیا ہے۔
اس انداز سے امام بخاری کی دقت نظر اور فقاہت و فراست ثابت ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1820