(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن يحيى بن الجزار ، عن ابن اخي زينب ، عن زينب امراة عبد الله، قالت: كان عبد الله إذا جاء من حاجة فانتهى إلى الباب، تنحنح وبزق، كراهية ان يهجم منا على شيء يكرهه، قالت: وإنه جاء ذات يوم، فتنحنح، قالت: وعندي عجوز ترقيني من الحمرة، فادخلتها تحت السرير، فدخل، فجلس إلى جنبي، فراى في عنقي خيطا، قال: ما هذا الخيط؟ قالت: قلت: خيط ارقي لي فيه، قالت: فاخذه فقطعه، ثم قال: إن آل عبد الله لاغنياء عن الشرك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول" إن الرقى، والتمائم، والتولة، شرك"، قالت: فقلت له: لم تقول هذا، وقد كانت عيني تقذف، فكنت اختلف إلى فلان اليهودي يرقيها، وكان إذا رقاها سكنت؟! قال: إنما ذلك عمل الشيطان، كان ينخسها بيده، فإذا رقيتها كف عنها، إنما كان يكفيك ان تقولي كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب الباس رب الناس، اشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهَى إِلَى الْبَابِ، تَنَحْنَحَ وَبَزَقَ، كَرَاهِيَةَ أَنْ يَهْجُمَ مِنَّا عَلَى شَيْءٍ يَكْرَهُهُ، قَالَتْ: وَإِنَّهُ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَتَنَحْنَحَ، قَالَتْ: وَعِنْدِي عَجُوزٌ تَرْقِينِي مِنَ الْحُمْرَةِ، فَأَدْخَلْتُهَا تَحْتَ السَّرِيرِ، فَدَخَلَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي، فَرَأَى فِي عُنُقِي خَيْطًا، قَالَ: مَا هَذَا الْخَيْطُ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: خَيْطٌ أُرْقِيَ لِي فِيهِ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ فَقَطَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ لَأَغْنِيَاءُ عَنِ الشِّرْكِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ" إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ، شِرْكٌ"، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا، وَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ، فَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِيهَا، وَكَانَ إِذَا رَقَاهَا سَكَنَتْ؟! قَالَ: إِنَّمَا ذَلِكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ، كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ، فَإِذَا رَقَيْتِهَا كَفَّ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جب کسی کام سے آتے تو دروازے پر رک کر کھانستے اور تھوک پھینکتے اور وہ اس چیز کو ناپسند سمجھتے تھے کہ اچانک ہم پر داخل ہو جائیں اور ان کے سامنے کوئی ایسی چیز آ جائے جو انہیں ناگوار ہو۔ ایک دن حسب معمول وہ آئے اور دروازے پر رک کر کھانسے، اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی جو مجھے سرخ بادہ کا دم کر رہی تھی، میں نے اسے اپنی چار پائی کے نیچے چھپا دیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اندر آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے، انہوں نے دیکھا کہ میری گردن میں ایک دھاگا لٹکا ہوا ہے، پوچھا کہ یہ کیسا دھاگا ہے؟ میں نے کہا کہ اس پر میرے لئے دم کیا گیا ہے، انہوں نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا: عبداللہ کے گھرانے والے شرک سے بیزار ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جھاڑ پھونک، تعویذ اور گنڈے سب شرک ہیں۔“ میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری آنکھ بہتی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس جاتی، وہ اس پر دم کرتا تو وہ ٹھیک ہو جاتی؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ شیطانی عمل ہے، شیطان اپنے ہاتھ سے اسے دھنساتا ہے، جب تم اس پر دم کرواتیں تو وہ باز آ جاتا تھا، تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم وہ دعا پڑھ لیا کرو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے: «أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»”اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما، مجھے شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے علاوہ کسی کی شفا کچھ نہیں، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن أخي زينب مجهول لكنه متابع