(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، قال:" جاء رجل إلى عبد الله ، فقال: إني تركت في المسجد رجلا يفسر القرآن برايه، يقول في هذه الآية: يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10 إلى آخرها: يغشاهم يوم القيامة دخان ياخذ بانفاسهم، حتى يصيبهم منه كهيئة الزكام! قال: فقال عبد الله: من علم علما، فليقل به، ومن لم يعلم، فليقل الله اعلم، فإن من فقه الرجل، ان يقول لما لا يعلم: الله اعلم، إنما كان هذا لان قريشا لما استعصت على النبي صلى الله عليه وسلم، دعا عليهم بسنين كسنين يوسف، فاصابهم قحط وجهدوا حتى اكلوا العظام، وجعل الرجل ينظر إلى السماء، فينظر ما بينه وبين السماء كهيئة الدخان من الجهد، فانزل الله عز وجل: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب اليم سورة الدخان آية 10 - 11، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل: يا رسول الله، استسق الله لمضر، فإنهم قد هلكوا، قال: فدعا لهم، فانزل الله عز وجل إنا كاشفو العذاب سورة الدخان آية 15، فلما اصابهم المرة الثانية عادوا، فنزلت يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16 يوم بدر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ: إِنِّي تَرَكْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ، يَقُولُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 إِلَى آخِرِهَا: يَغْشَاهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دُخَانٌ يَأْخُذُ بِأَنْفَاسِهِمْ، حَتَّى يُصِيبَهُمْ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ! قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَنْ عَلِمَ عِلْمًا، فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ، فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ: اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِينِ يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهِدُوا حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَنْظُرُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة الدخان آية 10 - 11، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، قَالَ: فَدَعَا لَهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ سورة الدخان آية 15، فَلَمَّا أَصَابَهُمْ الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ عَادُوا، فَنَزَلَتْ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ".
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آ رہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کر رہا ہے، وہ اس آیت کی تفسیر میں کہہ رہا ہے: «﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ﴾ [الدخان: 10] »”جس دن آسمان پر واضح دھواں دکھائی دے گا“ کہ یہ دھواں انہیں قیامت کے دن اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کے سانسوں میں داخل ہو کر زکام کی کیفیت پیدا کر دے گا، یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص کسی بات کو اچھی طرح جانتا ہو، وہ اسے بیان کر سکتا ہے، اور جسے اچھی طرح کسی بات کا علم نہ ہو، وہ کہہ دے کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے، کیونکہ یہ بھی انسان کی دانائی کی دلیل ہے کہ وہ جس چیز کے متعلق نہیں جانتا، کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مذکورہ آیت کا نزول اس پس منطر میں ہوا تھا کہ جب قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں حد سے آگے بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دور جیسا قحط نازل ہونے کی بد دعا فرمائی، چنانچہ قریش کو قحط سالی اور مشکلات نے آ گھیرا، یہاں تک کہ وہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں دکھائی دیتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ o يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [الدخان: 10-11] »”اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان پر ایک واضح دھواں آئے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ درد ناک عذاب ہے۔“ اس کے بعد کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو مضر کے لئے نزول باران کی دعا کیجئے، وہ تو ہلاک ہو رہے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی: «﴿إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ﴾ [الدخان: 15] »”ہم ان سے عذاب دور کر رہے ہیں“، لیکن وہ خوش حالی ملنے کے بعد جب دوبارہ اپنی انہی حرکات میں لوٹ گئے تو یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ﴾ [الدخان: 16] »”جس دن ہم انہیں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہیں“، اور اس سے مراد غزوہ بدر ہے۔