(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابن خثيم ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ان الملا من قريش اجتمعوا في الحجر، فتعاهدوا باللات والعزى، ومناة الثالثة الاخرى لو قد راينا محمدا، قمنا إليه قيام رجل واحد، فلم نفارقه حتى نقتله. قال: فاقبلت فاطمة تبكي حتى دخلت على ابيها، فقالت: هؤلاء الملا من قومك في الحجر، قد تعاهدوا ان لو قد راوك قاموا إليك فقتلوك، فليس منهم رجل إلا قد عرف نصيبه من دمك. قال:" يا بنية، ادني وضوءا" فتوضا، ثم دخل عليهم المسجد، فلما راوه، قالوا: هو هذا، فخفضوا ابصارهم، وعقروا في مجالسهم، فلم يرفعوا إليه ابصارهم، ولم يقم منهم رجل، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قام على رءوسهم، فاخذ قبضة من تراب، فحصبهم بها، وقال:" شاهت الوجوه". قال: فما اصابت رجلا منهم حصاة، إلا قد قتل يوم بدر كافرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْمَلَأَ مِنْ قُرَيْشٍ اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ، فَتَعَاهَدُوا بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الْأُخْرَى لَوْ قَدْ رَأَيْنَا مُحَمَّدًا، قُمْنَا إِلَيْهِ قِيَامَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَلَمْ نُفَارِقْهُ حَتَّى نَقْتُلَهُ. قَالَ: فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَبْكِي حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى أَبِيهَا، فَقَالَتْ: هَؤُلَاءِ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِكَ فِي الْحِجْرِ، قَدْ تَعَاهَدُوا أَنْ لَوْ قَدْ رَأَوْكَ قَامُوا إِلَيْكَ فَقَتَلُوكَ، فَلَيْسَ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا قَدْ عَرَفَ نَصِيبَهُ مِنْ دَمِكَ. قَالَ:" يَا بُنَيَّةُ، أَدْنِي وَضُوءًا" فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِمْ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا رَأَوْهُ، قَالُوا: هُوَ هَذَا، فَخَفَضُوا أَبْصَارَهُمْ، وَعُقِرُوا فِي مَجَالِسِهِمْ، فَلَمْ يَرْفَعُوا إِلَيْهِ أَبْصَارَهُمْ، وَلَمْ يَقُمْ مِنْهُمْ رَجُلٌ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَلَى رُءُوسِهِمْ، فَأَخَذَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ، فَحَصَبَهُمْ بِهَا، وَقَالَ:" شَاهَتْ الْوُجُوهُ". قَالَ: فَمَا أَصَابَتْ رَجُلًا مِنْهُمْ حَصَاةٌ، إِلَّا قَدْ قُتِلَ يَوْمَ بَدْرٍ كَافِرًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرداران قریش ایک مرتبہ حطیم میں جمع ہوئے اور لات، عزی، منات، نامی اپنے معبودان باطلہ کے نام پر یہ عہد و پیمان کیا کہ اگر ہم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھ لیا تو ہم سب اکٹھے کھڑے ہوں گے اور انہیں قتل کئے بغیر ان سے جدا نہ ہوں گے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سن لی، وہ روتی ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ سرداران قریش آپ کے متعلق یہ عہد و پیمان کر رہے ہیں کہ اگر انہوں نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ آگے بڑھ کر آپ کو قتل کر دیں گے، اور ان میں سے ہر ایک آپ کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”بیٹی! ذرا وضو کا پانی تو لاؤ۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور مسجد حرام میں تشریف لے گئے، ان لوگوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے: وہ یہ رہے، لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ انہوں نے اپنی نگاہیں جھکا لیں، اور ان کی ٹھوڑیاں ان کے سینوں پر لٹک گئیں، اور وہ اپنی اپنی جگہ پر حیران پریشان بیٹھے رہ گئے، وہ نگاہ اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکے اور نہ ہی ان میں سے کوئی آدمی اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلتے ہوئے آئے، یہاں تک کہ ان کے سروں کے پاس پہنچ کر کھڑے ہو گئے اور ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور فرمایا: ”یہ چہرے بگڑ جائیں“ اور وہ مٹی ان پر پھینک دی، جس جس شخص پر وہ مٹی گری، وہ جنگ بدر کے دن کفر کی حالت میں مارا گیا۔