حدثنا يحيى ، عن حسين ، قال: حدثني بديل ، عن ابي الجوزاء ، عن عائشة ، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يفتتح الصلاة بالتكبير والقراءة ب الحمد لله رب العالمين، فإذا ركع، لم يشخص راسه، ولم يصوبه، ولكن بين ذلك، وكان إذا رفع راسه من الركوع، لم يسجد حتى يستوي قائما، وكان إذا رفع راسه من السجود، لم يسجد حتى يستوي قاعدا، وكان يقول في كل ركعتين: التحية، وكان يكره ان يفترش ذراعيه افتراش السبع، وكان يفرش رجله اليسرى، وينصب رجله اليمنى، وكان ينهى عن عقب الشيطان، وكان يختم الصلاة بالتسليم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ حُسَيْنٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُدَيْلٌ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدِ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَإِذَا رَكَعَ، لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ، وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ: التَّحِيَّةَ، وَكَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَفْتَرِشَ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ، وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز تکبیر سے کرتے تھے اور قرأت کا آغاز سورت فاتحہ سے فرماتے تھے، جب رکوع میں جاتے تھے تو سر کو اونچا رکھتے تھے اور نہ ہی جھکا کر رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے تھے، جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدے میں نہ جاتے جب تک سیدھے کھڑے نہ جاتے اور جب ایک سجدے سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ اس وقت تک نہ کرتے جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے اور ہر دو رکعتوں پر " التحیات " پڑھتے تھے اور شیطان کی طرح ایڑیوں کو کھڑا رکھنے سے منع فرماتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر دائیں پاؤں کو کھڑا کرلیتے تھے اور اس بات سے بھی منع فرماتے تھے کہ ہم میں سے کوئی شخص کتے کی طرح اپنے بازوؤں کو بچھالے اور نماز کا اختتام سلام سے فرماتے تھے۔