حدثنا ابو النضر ، حدثنا عبد الحميد بن بهرام الفزاري ، عن شهر بن حوشب ، حدثنا عبد الرحمن بن غنم ، ان ابا مالك الاشعري جمع قومه، فقال: يا معشر الاشعريين , اجتمعوا واجمعوا نساءكم وابناءكم، اعلمكم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم التي صلى لنا بالمدينة فاجتمعوا وجمعوا نساءهم وابناءهم، فتوضا واراهم كيف يتوضا، فاحصى الوضوء إلى اماكنه حتى لما ان فاء الفيء، وانكسر الظل، قام فاذن، فصف الرجال في ادنى الصف، وصف الولدان خلفهم، وصف النساء خلف الولدان، ثم اقام الصلاة، فتقدم فرفع يديه فكبر، فقرا بفاتحة الكتاب وسورة يسرهما، ثم كبر فركع، فقال:" سبحان الله وبحمده , ثلاث مرار، ثم قال: سمع الله لمن حمده" , واستوى قائما، ثم كبر وخر ساجدا، ثم كبر فرفع راسه، ثم كبر فسجد، ثم كبر فانتهض قائما، فكان تكبيره في اول ركعة ست تكبيرات، وكبر حين قام إلى الركعة الثانية، فلما قضى صلاته اقبل إلى قومه بوجهه، فقال احفظوا تكبيري، وتعلموا ركوعي وسجودي، فإنها صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي كان يصلي لنا كذي الساعة من النهار" ز ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قضى صلاته اقبل إلى الناس بوجهه، فقال:" يا ايها الناس، اسمعوا واعقلوا، واعلموا ان لله عز وجل عبادا ليسوا بانبياء ولا شهداء، يغبطهم الانبياء والشهداء على مجالسهم وقربهم من الله"، فجاء رجل من الاعراب من قاصية الناس والوى بيده إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، ناس من الناس، ليسوا بانبياء ولا شهداء، يغبطهم الانبياء والشهداء على مجالسهم وقربهم من الله! انعتهم لنا يعني: صفهم لنا، فسر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لسؤال الاعرابي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هم ناس من افناء الناس ونوازع القبائل، لم تصل بينهم ارحام متقاربة تحابوا في الله وتصافوا، يضع الله لهم يوم القيامة منابر من نور، فيجلسهم عليها فيجعل وجوههم نورا وثيابهم نورا، يفزع الناس يوم القيامة ولا يفزعون، وهم اولياء الله الذين لا خوف عليهم ولا هم يحزنون" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ ، أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِيَّ جَمَعَ قَوْمَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَشْعَرِيِّينَ , اجْتَمِعُوا وَاجْمَعُوا نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ، أُعَلِّمْكُمْ صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي صَلَّى لَنَا بِالْمَدِينَةِ فَاجْتَمَعُوا وَجَمَعُوا نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ، فَتَوَضَّأَ وَأَرَاهُمْ كَيْفَ يَتَوَضَّأُ، فَأَحْصَى الْوُضُوءَ إِلَى أَمَاكِنِهِ حَتَّى لَمَّا أَنْ فَاءَ الْفَيْءُ، وَانْكَسَرَ الظِّلُّ، قَامَ فَأَذَّنَ، فَصَفَّ الرِّجَالَ فِي أَدْنَى الصَّفِّ، وَصَفَّ الْوِلْدَانَ خَلْفَهُمْ، وَصَفَّ النِّسَاءَ خَلْفَ الْوِلْدَانِ، ثُمَّ أَقَامَ الصَّلَاةَ، فَتَقَدَّمَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَكَبَّرَ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ يُسِرُّهُمَا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ، فَقَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ , ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" , وَاسْتَوَى قَائِمًا، ثُمَّ كَبَّرَ وَخَرَّ سَاجِدًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَانْتَهَضَ قَائِمًا، فَكَانَ تَكْبِيرُهُ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ سِتَّ تَكْبِيرَاتٍ، وَكَبَّرَ حِينَ قَامَ إِلَى الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ أَقْبَلَ إِلَى قَوْمِهِ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ احْفَظُوا تَكْبِيرِي، وَتَعَلَّمُوا رُكُوعِي وَسُجُودِي، فَإِنَّهَا صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي كَانَ يُصَلِّي لَنَا كَذَي السَّاعَةِ مِنَ النَّهَارِ" ز ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ أَقْبَلَ إِلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا وَاعْقِلُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عِبَادًا لَيْسُوا بِأَنْبِيَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ، يَغْبِطُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ عَلَى مَجَالِسِهِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللَّهِ"، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَعْرَابِ مِنْ قَاصِيَةِ النَّاسِ وَأَلْوَى بِيَدِهِ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، لَيْسُوا بِأَنْبِيَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ، يَغْبِطُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ عَلَى مَجَالِسِهِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللَّهِ! انْعَتْهُمْ لَنَا يَعْنِي: صِفْهُمْ لَنَا، فَسُرَّ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسُؤَالِ الْأَعْرَابِيِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمْ نَاسٌ مِنْ أَفْنَاءِ النَّاسِ وَنَوَازِعِ الْقَبَائِلِ، لَمْ تَصِلْ بَيْنَهُمْ أَرْحَامٌ مُتَقَارِبَةٌ تَحَابُّوا فِي اللَّهِ وَتَصَافَوْا، يَضَعُ اللَّهُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، فَيُجْلِسُهُمْ عَلَيْهَا فَيَجْعَلُ وُجُوهَهُمْ نُورًا وَثِيَابَهُمْ نُورًا، يَفْزَعُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَفْزَعُونَ، وَهُمْ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ" .
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو جمع کر کے فرمایا اے گروہ اشعریین! خود بھی ایک جگہ جمع ہوجاؤ اور اپنے بیوی بچوں کو بھی جمع کرلو تاکہ میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز سکھادوں " جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مدینہ میں پڑھائی تھی چنانچہ وہ سب جمع ہوگئے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی جمع کرلیا " پھر انہوں نے لوگوں کو وضو کر کے دکھایا اور ہر عضو پر خوب احتیاط سے وضو کر کے تمام اعضاء کا احاطہ کیا اور جب سایہ لوٹنا شروع ہوا تو انہوں نے کھڑے ہو کر اذان دی پھر سب سے پہلے مردوں کی صفیں بنائیں ان کے پیچھے بچوں کی اور ان کے پیچھے عورتوں کی پھر اقامت کہلوائی اور آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔
سب سے پہلے دونوں ہاتھ بلند کئے اور تکبیر کہی پھر سری طور پر سورت فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھی اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے تین مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر سیدھے کھڑے ہوگئے پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں چلے گئے پھر تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا پھر تکبیر کہہ کر سیدھے کھڑے ہوگئے اس طرح پہلی رکعت میں چھ تکبیریں ہوئیں اور دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے بھی تکبیر کہی تھی۔
نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے اپنی قوم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میری تکبیرات کو یاد رکھو اور میرا رکوع و سجود سیکھ لو کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی نماز ہے جو اس وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں پڑھاتے تھے ایک دن اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر اپنا رخ زیب لوگوں کی طرف کیا اور فرمایا لوگو! سنو سمجھو اور یقین رکھو کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو نبی یا شہید تو نہ ہوں گے لیکن قرب الہٰی اور نشست کو دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے اس پر سب سے آخر میں بیٹھے ہوئے ایک دیہاتی نے گھٹنوں کے بل جھک کر عرض کیا یا رسول اللہ! ان لوگوں کے اوصاف ہم سے بیان فرما دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دیہاتی کا یہ سوال سن کر خوش ہوئے اور فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا نسب نامہ لوگوں میں معروف ہوگا اور نہ ہی قبیلہ بلکہ اجنبی قبائل سے تعلق رکھتے ہوں گے اور ان کے درمیان کوئی قریبی رشتہ داری نہ ہوگی وہ اللہ کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے اور صف بندی کرتے ہوں گے قیامت کے دن اللہ ان کے لئے نور کے منبر رکھے گا اور انہیں ان پر بٹھائے گا ان کے چہرے نورانی کر دے گا اور ان کے کپڑے نور کے ہوں گے قیامت کے دن تمام لوگ خوفزدہ ہوں گے لیکن وہ خوفزدہ نہ ہوں گے یہ وہی اولیاء اللہ ہوں گے جن پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔