حدثنا يزيد ، ومحمد بن يزيد ، قالا: حدثنا العوام ، قال محمد : عن القاسم ، وقال يزيد في حديثه: حدثني القاسم بن عوف الشيباني ، عن رجل ، قال: كنا قد حملنا لابي ذر شيئا نريد ان نعطيه إياه، فاتينا الربذة، فسالنا عنه فلم نجده، قيل: استاذن في الحج، فاذن له، فاتيناه بالبلدة، وهي منى، فبينا نحن عنده إذ قيل له: إن عثمان صلى اربعا، فاشتد ذلك على ابي ذر، وقال: قولا شديدا، وقال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين، وصليت مع ابي بكر وعمر، ثم قام ابو ذر فصلى اربعا، فقيل له: عبت على امير المؤمنين شيئا، ثم صنعت! قال: الخلاف اشد، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا، فقال: " إنه كائن بعدي سلطان فلا تذلوه، فمن اراد ان يذله فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه، وليس بمقبول منه توبة حتى يسد ثلمته التي ثلم، وليس بفاعل، ثم يعود فيكون فيمن يعزه"، امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان لا يغلبونا على ثلاث ان نامر بالمعروف، وننهى عن المنكر، ونعلم الناس السنن" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : عَنِ الْقَاسِمِ ، وَقَالَ يَزِيدُ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ: كُنَّا قَدْ حَمَلْنَا لِأَبِي ذَرٍّ شَيْئًا نُرِيدُ أَنْ نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ، فَأَتَيْنَا الرَّبَذَةَ، فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَلَمْ نَجِدْهُ، قِيلَ: اسْتَأْذَنَ فِي الْحَجِّ، فَأُذِنَ لَهُ، فَأَتَيْنَاهُ بِالْبَلْدَةِ، وَهِيَ مِنًى، فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ قِيلَ لَهُ: إِنَّ عُثْمَانَ صَلَّى أَرْبَعًا، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى أَبِي ذَرٍّ، وَقَالَ: قَوْلًا شَدِيدًا، وَقَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، ثُمَّ قَامَ أَبُو ذَرٍّ فَصَلَّى أَرْبَعًا، فَقِيلَ لَهُ: عِبْتَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْئًا، ثُمَّ صَنَعْتَ! قَالَ: الْخِلَافُ أَشَدُّ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَقَالَ: " إِنَّهُ كَائِنٌ بَعْدِي سُلْطَانٌ فَلَا تُذِلُّوهُ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُذِلَّهُ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ، وَلَيْسَ بِمَقْبُولٍ مِنْهُ تَوْبَةٌ حَتَّى يَسُدَّ ثُلْمَتَهُ الَّتِي ثَلَمَ، وَلَيْسَ بِفَاعِلٍ، ثُمَّ يَعُودُ فَيَكُونُ فِيمَنْ يُعِزُّهُ"، أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ لَا يَغْلِبُونَا عَلَى ثَلَاثٍ أَنْ نَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، وَنُعَلِّمَ النَّاسَ السُّنَنَ" .
ایک آدمی کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے کچھ چیزیں اکٹھی کیں تاکہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جا کر دے آئیں چنانچہ ہم " ربذہ " میں پہنچے اور انہیں تلاش کرنے لگے لیکن وہ وہاں نہیں ملے کسی نے بتایا کہ انہوں نے حج پر جانے کی اجازت مانگی تھی جو انہیں مل گئی چنانچہ ہم منٰی میں پہنچے ابھی ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے ہی تھے کہ کسی نے آکر انہیں بتایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے منٰی میں چار رکعتیں پڑھائی ہیں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اس کا بہت بوجھ ہوا اور انہوں نے کچھ تلخ باتیں کہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے انہوں نے دو رکعتیں پڑھی تھیں اور میں نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اسی طرح نماز پڑھی ہے۔
پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو چار رکعتیں پڑھیں کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے پہلے تو امیرالمؤمنین کے فعل کو معیوب قرار دیا پھر خود وہی کام کرنے لگے انہوں نے فرمایا اختلاف کرنا زیادہ شدید ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد ایک بادشاہ آئے گا تم اسے ذلیل نہ کرنا جو شخص اسے ذلیل کرنا چاہئے گا تو گویا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال دی اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی تاآنکہ وہ اس سوراخ کو بند کر دے جسے اس نے کھولا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا پھر اگر وہ واپس آجاتا ہے تو وہ عزت کرنے والوں میں ہوگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ہم تین چیزوں سے مغلوب نہ رہیں امربالمعروف کرتے رہیں نہی عن المنکر کرتے رہیں اور لوگوں کو سنتوں کی تعلیم کرتے رہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن أبى ذر، وفي القاسم بن عوف كلام