حدثنا يزيد ، حدثنا سفيان يعني ابن حسين ، عن الحكم ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم على حمار وعليه برذعة او قطيفة، قال: وذلك عند غروب الشمس، فقال لي:" يا ابا ذر، هل تدري اين تغيب هذه؟" قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها تغرب في عين حامية، تنطلق حتى تخر لربها ساجدة تحت العرش، فإذا حان خروجها اذن الله لها فتخرج فتطلع، فإذا اراد ان يطلعها من حيث تغرب حبسها، فتقول: يا رب إن مسيري بعيد فيقول لها اطلعي من حيث غبت، فذلك حين لا ينفع نفسا إيمانها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ يَعْنِي ابْنَ حُسَيْنٍ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ وَعَلَيْهِ بَرْذَعَةٌ أَوْ قَطِيفَةٌ، قَالَ: وَذَلِكَ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَغِيبُ هَذِهِ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَامِيَةٍ، تَنْطَلِقُ حَتَّى تَخِرَّ لِرَبِّهَا سَاجِدَةً تَحْتَ الْعَرْشِ، فَإِذَا حَانَ خُرُوجُهَا أَذِنَ اللَّهُ لَهَا فَتَخْرُجُ فَتَطْلُعُ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُطْلِعَهَا مِنْ حَيْثُ تَغْرُبُ حَبَسَهَا، فَتَقُولُ: يَا رَبِّ إِنَّ مَسِيرِي بَعِيدٌ فَيَقُولُ لَهَا اطْلُعِي مِنْ حَيْثُ غِبْتِ، فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غروب آفتاب کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جا کر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر وہ واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے جو اسے مل جاتی ہے جب اس سے کہا جائے کہ تو جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلاجا اور وہ اپنے مطلع کی طرف لوٹ جائے تو یہی اس کا مستقر ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے۔ "
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عراك بن مالك لم يسمع من أبى ذر