حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن عباد المكي ، حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن عبد الملك بن حسن الجاري ، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الا ولا يحل لامرئ من مال اخيه شيء إلا بطيب نفس منه"، فقلت: يا رسول الله، ارايت إن لقيت غنم ابن عمي، اجتزر منها شاة؟ فقال:" إن لقيتها نعجة تحمل شفرة وازنادا بخبت الجميش، فلا تهجها" ، قال: يعني خبت الجميش ارضا بين مكة والجار، ليس بها انيس.حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ حَسَنٍ الْجَارِيِّ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَارِثَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَلَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّي، أَجْتَزِرُ مِنْهَا شَاةً؟ فَقَالَ:" إِنْ لَقِيتَهَا نَعْجَةً تَحْمِلُ شَفْرَةً وَأَزْنَادًا بِخَبْتِ الْجَمِيشِ، فَلَا تَهِجْهَا" ، قَالَ: يَعْنِي خَبْتَ الْجَمِيشِ أَرْضًا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْجَارِ، لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ.
حضرت عمرو بن یثربی ضمری سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے میں شریک تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان منیٰ میں دیا تھا آپ نے منجملہ دیگر باتوں کے اس خطبے میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا مال اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک وہ اپنے دل کی خوشی سے اس کی اجازت نہ دے میں نے یہ سن کر بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ بتائیے کہ اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کا ریوڑ ملے اور میں اس میں سے ایک بکری لے کر چلاجاؤں تو کیا اس میں مجھے گناہ ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں ایسی بھیڑ ملے جو چھری اور چقماق کا تحمل کرسکتی ہو تو اسے ہاتھ بھی نہ لگانا۔
حكم دارالسلام: شطره الاول صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عمارة بن حارثة