مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
801. حَدِيثُ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
حدیث نمبر: 19810
Save to word اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن كنانة بن نعيم ، عن ابي برزة : ان جليبيبا كان من الانصار , وكان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان لاحدهم ايم لم يزوجها حتى يعلم اللنبي صلى الله عليه وسلم فيها حاجة ام لا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم لرجل من الانصار: " زوجني ابنتك" , فقال: نعم ونعمة عين , فقال له:" إني لست لنفسي اريدها" قال: فلمن؟ قال:" لجليبيب" قال: حتى استامر امها , فاتاها , فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب ابنتك , قالت: نعم ونعمة عين، زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: إنه ليس يريدها لنفسه , قالت: فلمن؟ قال: لجليبيب , قالت: حلقى، اجليبيب ابنه مرتين , لا لعمر الله، لا ازوج جليبيبا , قال: فلما قام ابوها لياتي النبي صلى الله عليه وسلم، قالت الفتاة لامها من خدرها: من خطبني إليكما؟ قالت النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: فتردون على النبي صلى الله عليه وسلم امره، ادفعوني إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإنه لا يضيعني , فاتى ابوها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: شانك بها , فزوجها جليبيبا . فبينما النبي صلى الله عليه وسلم في مغزى له، وافاء الله عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل تفقدون من احد؟" قالوا: نفقد فلانا، ونفقد فلانا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لكني افقد جليبيبا، فانظروه في القتلى" فنظروه، فوجدوه إلى جنب سبعة قد قتلهم، ثم قتلوه، قال: فوقف النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " قتل سبعة، ثم قتلوه! هذا مني وانا منه" ثم حمله رسول الله صلى الله عليه وسلم على ساعديه، ما له سرير غير ساعدي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى حفر له، ثم وضعه في لحده , وما ذكر غسلا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ : أَنَّ جُلَيْبِيبًا كَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ , وكان أصحابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ لِأَحَدِهِمْ أَيِّمٌ لَمْ يُزَوِّجْهَا حَتَّى يَعْلَمَ أَلِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا حَاجَةٌ أَمْ لَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: " زَوِّجْنِي ابْنَتَكَ" , فَقَالَ: نِعِمَّ وَنُعْمَةُ عَيْنٍ , فَقَالَ لَهُ:" إِنِّي لَسْتُ لِنَفْسِي أُرِيدُهَا" قَالَ: فَلِمَنْ؟ قَالَ:" لِجُلَيْبِيبٍ" قَالَ: حَتَّى أَسْتَأْمِرَ أُمَّهَا , فَأَتَاهَا , فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ابْنَتَكِ , قَالَتْ: نِعِمَّ وَنُعْمَةُ عَيْنٍ، زَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ يُرِيدُهَا لِنَفْسِهِ , قَالَتْ: فَلِمَنْ؟ قَالَ: لِجُلَيْبِيبٍ , قَالَتْ: حَلْقَى، أَجُلَيْبِيبٌ ابنه مَرَّتَيْنِ , لَا لَعَمْرُ اللَّهِ، لَا أُزَوِّجُ جُلَيْبِيبًا , قَالَ: فَلَمَّا قَامَ أَبُوهَا لِيَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ الْفَتَاةُ لِأُمِّهَا مِنْ خِدْرِهَا: مَنْ خَطَبَنِي إِلَيْكُمَا؟ قَالَتْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَتَرُدُّونَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَهُ، ادْفَعُونِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَا يُضَيِّعُنِي , فَأَتَى أَبُوهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: شَأْنَكَ بِهَا , فَزَوَّجَهَا جُلَيْبِيبًا . فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَغْزًى لَهُ، وَأَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟" قَالُوا: نَفْقِدُ فُلَانًا، وَنَفْقِدُ فُلَانًا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا، فَانْظُرُوهُ فِي الْقَتْلَى" فَنَظَرُوهُ، فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، قَالَ: فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " قَتَلَ سَبْعَةً، ثُمَّ قَتَلُوهُ! هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" ثُمَّ حَمَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَاعِدَيْهِ، مَا لَهُ سَرِيرٌ غَيْرَ سَاعِدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى حُفِرَ لَهُ، ثُمَّ وَضَعَهُ فِي لَحْدِهِ , وَمَا ذَكَرَ غُسْلًا .
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جلیبیب عورتوں کے پاس سے گذرتا اور انہیں تفریح مہیا کرتا تھا، میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گا، انصار کی عادت تھی کہ وہ کسی بیوہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع نہ کردیتے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس سے کوئی ضرورت نہیں ہے، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی سے کہا کہ اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو، اس نے کہا زہے نصیب یارسول اللہ! بہت بہتر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنی ذات کے لئے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، اس نے پوچھا یارسول اللہ! پھر کس کے لئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلیبیب کے لئے، اس نے کہا یا رسول اللہ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں، چناچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری بیٹی کو پیغام نکاح دیتے ہیں، اس نے کہا بہت اچھا، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، اس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے پیغام نہیں دے رہے بلکہ جلیبیب کے لئے پیغام دے رہے ہیں، اس نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیا بخدا! کسی صورت میں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلیبیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا، ہم نے تو فلاں فلاں رشتے سے انکار کردیا تھا، ادھر وہ لڑکی اپنے پردے میں سے سن رہی تھی۔ باہم صلاح مشورے کے بعد جب وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع کرنے کے لئے روانہ ہونے لگا تو وہ لڑکی کہنے لگی کہ کیا آپ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کریں گے، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اس میں شامل ہے تو آپ نکاح کردیں، یہ کہہ کر اس نے اپنے والدین کی آنکھیں کھول دیں اور وہ کہنے لگے کہ تم سچ کہہ رہی ہو، چناچہ اس کا باپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راضی ہوں، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیبیب سے اس لڑکی کا نکاح کردیا، کچھ ہی عرصے بعد اہل مدینہ پر حملہ ہوا، جلیبیب بھی سوار ہو کر نکلے۔ جب جنگ سے فراغت ہوئی تو لوگوں سے پوچھا کہ تم کسی کو غائب پا رہے ہو، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! فلاں فلاں لوگ ہمیں نہیں مل رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن مجھے جلیبیب غائب نظر آ رہا ہے، اسے تلاش کرو، لوگوں نے انہیں تلاش کیا تو وہ سات آدمیوں کے پاس مل گئے، حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ نے ان ساتوں کو قتل کیا تھا بعد میں خود بھی شہید ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا اس نے سات آدمیوں کو قتل کیا ہے، بعد میں مشرکین نے اسے شہید کردیا، یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، یہ جملے دو مرتبہ دہرائے، پھر جب اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اٹھایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا اور تدفین تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازو ہی تھے جو ان کے لئے جنازے کی چارپائی تھی، راوی نے غسل کا ذکر نہیں کیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.