حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن كنانة بن نعيم العدوي ، عن ابي برزة الاسلمي , ان جليبيبا كان امرا يدخل على النساء , قال: وكانت الانصار إذا كان لاحدهم ايم، لم يزوجها حتى يعلم , هل للنبي صلى الله عليه وسلم فيها حاجة ام لا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل من الانصار: " زوجني ابنتك" فقال: نعم وكرامة , يا رسول الله، ونعم عيني , قال:" إني لست اريدها لنفسي" , قال: فلمن يا رسول الله؟ قال:" لجليبيب" , قال: فقال: يا رسول الله، اشاور امها , فاتى امها، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب ابنتك , فقالت: نعم ونعمة عيني , فقال: إنه ليس يخطبها لنفسه، إنما يخطبها لجليبيب , فقالت: اجليبيب ابنه؟ اجليبيب ابنه؟ اجليبيب ابنه؟ لا لعمر الله، لا نزوجه , فلما اراد ان يقوم لياتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيخبره بما قالت امها، قالت الجارية: من خطبني إليكم؟ فاخبرتها امها , فقالت: اتردون على رسول الله صلى الله عليه وسلم امره، ادفعوني، فإنه لم يضيعني , فانطلق ابوها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال:" شانك بها" , فزوجها جليبيبا . قال: فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة له، قال: فلما افاء الله عليه، قال لاصحابه: " هل تفقدون من احد؟" قالوا: نفقد فلانا، ونفقد فلانا , قال:" انظروا هل تفقدون من احد؟" قالوا: لا , قال:" لكني افقد جليبيبا" قال:" فاطلبوه في القتلى" , قال: فطلبوه، فوجدوه إلى جنب سبعة قد قتلهم، ثم قتلوه، فقالوا: يا رسول الله، ها هو ذا إلى جنب سبعة قد قتلهم، ثم قتلوه، فاتاه النبي صلى الله عليه وسلم، فقام عليه، فقال:" قتل سبعة وقتلوه، هذا مني وانا منه، هذا مني وانا منه" مرتين او ثلاثا، ثم وضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم على ساعديه، وحفر له، ما له سرير إلا ساعدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم وضعه في قبره , ولم يذكر انه غسله . قال ثابت: فما كان في الانصار ايم انفق منها , وحدث إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة , ثابتا، قال: هل تعلم ما دعا لها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: " اللهم صب عليها الخير صبا، ولا تجعل عيشها كدا كدا" , قال: فما كان في الانصار ايم انفق منها , قال ابو عبد الرحمن: ما حدث به في الدنيا احد إلا حماد بن سلمة، ما احسنه من حديث!.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ , أَنَّ جُلَيْبِيبًا كَانَ امْرَأً يَدْخُلُ عَلَى النِّسَاءِ , قَالَ: وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا كَانَ لِأَحَدِهِمْ أَيِّمٌ، لَمْ يُزَوِّجْهَا حَتَّى يَعْلَمَ , هَلْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا حَاجَةٌ أَمْ لَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: " زَوِّجْنِي ابْنَتَكَ" فَقَالَ: نِعِمَّ وَكَرَامَةٌ , يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَنُعْمَ عَيْنِي , قَالَ:" إِنِّي لَسْتُ أُرِيدُهَا لِنَفْسِي" , قَالَ: فَلِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِجُلَيْبِيبٍ" , قَالَ: فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُشَاوِرُ أُمَّهَا , فَأَتَى أُمَّهَا، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ابْنَتَكِ , فَقَالَتْ: نِعِمَّ وَنُعْمَةُ عَيْنِي , فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ يَخْطُبُهَا لِنَفْسِهِ، إِنَّمَا يَخْطُبُهَا لِجُلَيْبِيبٍ , فَقَالَتْ: أَجُلَيْبِيبٌ ابنه؟ أَجُلَيْبِيبٌ ابنه؟ أَجُلَيْبِيبٌ ابنه؟ لَا لَعَمْرُ اللَّهِ، لَا نُزَوَّجُهُ , فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ لِيَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فيُخْبِرَهُ بِمَا قَالَتْ أُمُّهَا، قَالَتْ الْجَارِيَةُ: مَنْ خَطَبَنِي إِلَيْكُمْ؟ فَأَخْبَرَتْهَا أُمُّهَا , فَقَالَتْ: أَتَرُدُّونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَهُ، ادْفَعُونِي، فَإِنَّهُ لَمْ يُضَيِّعْنِي , فَانْطَلَقَ أَبُوهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فقَالَ:" شَأْنَكَ بِهَا" , فَزَوَّجَهَا جُلَيْبِيبًا . قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ لَهُ، قَالَ: فَلَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، قَالَ لِأَصْحَابِهِ: " هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟" قَالُوا: نَفْقِدُ فُلَانًا، وَنَفْقِدُ فُلَانًا , قَالَ:" انْظُرُوا هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟" قَالُوا: لَا , قَالَ:" لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا" قَالَ:" فَاطْلُبُوهُ فِي الْقَتْلَى" , قَالَ: فَطَلَبُوهُ، فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَا هُوَ ذَا إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" قَتَلَ سَبْعَةً وَقَتَلُوهُ، هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَاعِدَيْهِ، وَحُفِرَ لَهُ، مَا لَهُ سَرِيرٌ إِلَّا سَاعِدَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَهُ فِي قَبْرِهِ , وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ غَسَّلَهُ . قَالَ ثَابِتٌ: فَمَا كَانَ فِي الْأَنْصَارِ أَيِّمٌ أَنْفَقَ مِنْهَا , وَحَدَّثَ إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ , ثَابِتًا، قَالَ: هَلْ تَعْلَمْ مَا دَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " اللَّهُمَّ صُبَّ عَلَيْهَا الْخَيْرَ صَبًّا، وَلَا تَجْعَلْ عَيْشَهَا كَدًّا كَدًّا" , قَالَ: فَمَا كَانَ فِي الْأَنْصَارِ أَيِّمٌ أَنْفَقَ مِنْهَا , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: مَا حَدَّثَ بِهِ فِي الدُّنْيَا أَحَدٌ إِلَّا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، مَا أَحْسَنَهُ مِنْ حَدِيثٍ!.
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جلیبیب عورتوں کے پاس سے گذرتا اور انہیں تفریح مہیا کرتا تھا، میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گا، انصار کی عادت تھی کہ وہ کسی بیوہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع نہ کردیتے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس سے کوئی ضرورت نہیں ہے، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی سے کہا کہ اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو، اس نے کہا زہے نصیب یا رسول اللہ! بہت بہتر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنی ذات کے لئے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، اس نے پوچھا یارسول اللہ! پھر کس کے لئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلیبیب کے لئے، اس نے کہا یارسول اللہ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں، چناچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے پیغام نہیں دے رہے بلکہ جلیبیب کے لئے پیغام دے رہے ہیں، اس نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیا بخدا! کسی صورت میں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلیبیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا، ہم نے تو فلاں فلاں رشتے سے انکار کردیا تھا، ادھر وہ لڑکی اپنے پردے میں سے سن رہی تھی۔ باہم صلاح و مشورے کے بعد جب وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع کرنے کے لئے روانہ ہونے لگا تو وہ لڑکی کہنے لگی کہ کیا آپ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کریں گے، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اس میں شامل ہے تو آپ نکاح کردیں، یہ کہہ کر اس نے اپنے والدین کی آنکھیں کھول دیں اور وہ کہنے لگے کہ تم سچ کہہ رہی ہو، چناچہ اس کا باپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں راضی ہوں، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیبیب سے اس لڑکی کا نکاح کردیا، کچھ ہی عرصے بعد اہل مدینہ پر حملہ ہوا، جلیبیب بھی سوار ہو کر نکلے۔ جب جنگ سے فراغت ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ تم کسی کو غائب پا رہے ہو، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! فلاں فلاں لوگ ہمیں نہیں مل رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن مجھے جلیبیب غائب نظر آ رہا ہے، اسے تلاش کرو، لوگوں نے انہیں تلاش کیا تو وہ سات آدمیوں کے پاس مل گئے، حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ نے ان ساتوں کو قتل کیا تھا بعد میں خود بھی شہید ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا اس نے سات آدمیوں کو قتل کیا ہے، بعد میں مشرکین نے اسے شہید کردیا، یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، یہ جملے دو تین مرتبہ دہرائے، پھر جب اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اٹھایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا اور تدفین تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازو ہی تھے جو ان کے لئے جنازے کی چارپائی تھی، راوی نے غسل کا ذکر نہیں کیا۔