حدثنا عبد الوهاب الخفاف ، اخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن عمرو بن خارجة ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بمنى على راحلته، وإني لتحت جران ناقته وهي تقصع بجرتها، ولعابها يسيل بين كتفي، فقال: " إن الله عز وجل قد قسم لكل إنسان نصيبه من الميراث، ولا يجوز لوارث وصية، الا وإن الولد للفراش، وللعاهر الحجر، الا ومن ادعى إلى غير ابيه، او تولى غير مواليه رغبة عنهم، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين" . قال سعيد ، وحدثنا مطر ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن عمرو بن خارجة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله. وزاد مطر في الحديث:" ولا يقبل منه صرف ولا عدل"..حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الْخَفَّافُ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِمِنًى عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَإِنِّي لَتَحْتَ جِرَانِ نَاقَتِهِ وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا، وَلُعَابُهَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَسَمَ لِكُلِّ إِنْسَانٍ نَصِيبَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ، وَلَا يَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ، أَلَا وَإِنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، أَلَا وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ رَغْبَةً عَنْهُمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ" . قَالَ سَعِيدٌ ، وحَدَّثَنَا مَطَرٌ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ. وَزَادَ مَطَرٌ فِي الْحَدِيثِ:" وَلَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ"..
حضرت عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (منی کے میدان میں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر (جو جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب میرے دونوں کندھوں کے درمیان بہہ رہا تھا) خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا یاد رکھو میرے لئے اور میرے اہل بیت کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے، پھر اپنی اونٹنی کے کندھے سے ایک بال لے کر فرمایا اس کے برابر بھی نہیں اس شخص پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے یا جو اپنے آقا کو چھوڑ کر کسی اور سے موالات کرے، اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں ہوں گے، بچہ صاحب فراش کا ہوتا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لئے وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب