حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا مجالد ، عن قيس بن ابي حازم ، عن المستورد بن شداد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده، ما الدنيا في الآخرة، إلا كرجل وضع إصبعه في اليم ثم رجعها". قال: وإني لفي الركب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمر على سخلة منبوذة على كناسة، فقال:" اترون هذه هانت على اهلها؟" فقالوا: من هوانها القوها هاهنا. قال:" والذي نفسي بيده، للدنيا على الله عز وجل اهون من هذه على اهلها" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ، إِلَّا كَرَجُلٍ وَضَعَ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ ثُمَّ رَجَعَهَا". قَالَ: وَإِنِّي لَفِي الرَّكْبِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ عَلَى سَخْلَةٍ مَنْبُوذَةٍ عَلَى كُنَاسةٍ، فَقَالَ:" أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا؟" فَقَالُوا: مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا هَاهُنَا. قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَلدُّنْيَا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَهْوَنُ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا" .
حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دنیا کو آخرت کے ساتھ صرف اتنی ہی نسبت ہے جتنی تم میں سے کسی شخص کی انگلی سمندر میں ڈوبنے پر قطرے کو سمندر سے ہوتی ہے، کہ جب وہ یہ انگلی ڈبوتا ہے تو باہر نکال کر دیکھے کہ اس پر کتنا پانی لگا ہے، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ اور ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک مردار بکری پر ہوا جس کی کھال اتار کر اسے پھینک دیا گیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارا یہی خیال ہے کہ اس بکری کو اس کے مالک حقیر سمجھتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم حقیر سمجھ کر ہی تو اسے انہوں نے پھینک دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے جتنی حقیر یہ بکری اپنے مالک کی نظر میں ہے، دنیا اللہ کی نظروں میں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2858، وهذا إسناد ضعيف لأجل مجالد بن سعيد، لكنه توبع على القطعة الأولى