حدثنا إسماعيل ، عن ابن جريج ، قال: اخبرني عطاء ، عن صفوان بن يعلى ، عن يعلى بن امية ، قال: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم جيش العسرة، وكان من اوثق اعمالي في نفسي، وكان لي اجير فقاتل إنسانا فعض احدهما صاحبه، فانتزع اصبعه، فاندر ثنيته، وقال: " افيدع يده في فيك تقضمها؟!" قال احسبه:" كما يقضم الفحل" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ، وَكَانَ مِنْ أَوْثَقِ أَعْمَالِي فِي نَفْسِي، وَكَانَ لِي أَجِيرٌ فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَانْتَزَعَ أُصْبُعَهُ، فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، وَقَالَ: " أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضِمُهَا؟!" قَالَ أَحْسَبُهُ:" كَمَا يَقْضِمُ الْفَحْلُ" .
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھا، میرے نزدیک یہ انتہائی مضبوط عمل ہے، راستے میں میرے مزدور (کرایہ دار) کی ایک آدمی سے لڑائی ہوگئی، اس نے اس کا ہاتھ اپنے منہ میں لے کر کاٹ لیا، اس نے جو اپنے ہاتھ کو کھینچا تو اس کا دانت ٹوٹ کر گرگیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دعوی باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا تو کیا وہ اپنے ہاتھ کو تمہارے منہ میں ہی رہنے دیتا تاکہ تم اسے سانڈ کی طرح چباتے رہتے۔