حدثنا ابو بكر الحنفي ، قال: حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، عن ابيه ، عن رجل من مزينة، انه قالت له امه: الا تنطلق فتسال رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يساله الناس، فانطلقت اساله، فوجدته قائما يخطب وهو يقول: " من استعف اعفه الله، ومن استغنى اغناه الله، ومن سال الناس وله عدل خمس اواق فقد سال إلحافا" ، فقلت بيني وبين نفسي لناقة له هي خير من خمس اواق، ولغلامه ناقة اخرى هي خير من خمس اواق، فرجعت، ولم اساله.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَنَّهُ قَالَتْ لَهُ أُمُّهُ: أَلَا تَنْطَلِقُ فَتَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا يَسْأَلُهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقْتُ أَسْأَلُهُ، فَوَجَدْتُهُ قَائِمًا يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: " مَنْ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللَّهُ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ عِدْلُ خَمْسِ أَوَاقٍ فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا" ، فَقُلْتُ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي لَنَاقَةٌ لَهُ هِيَ خَيْرٌ مِنْ خَمْسِ أَوَاقٍ، وَلِغُلَامِهِ نَاقَةٌ أُخْرَى هِيَ خَيْرٌ مِنْ خَمْسِ أَوَاقٍ، فَرَجَعْتُ، وَلَمْ أَسْأَلْهُ.
ایک مزنی صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ان کی والدہ نے کہا کہ تم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دوسرے لوگوں کی طرح سوال کیوں نہیں کرتے؟ چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوال کے لئے روانہ ہو، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں جو شخص عفت طلب کرتا ہے، اللہ اسے عفت عطاء فرما دیتا ہے اور جو شخص غناء طلب کرتا ہے اللہ اسے غناء عطاء فرما دیتا ہے اور جو شخص پانچ اوقیہ چاندی کے برابر رقم ہونے کے باوجود لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے، وہ الحاف کے ساتھ سوال کرتا ہے، میں نے اپنے دل میں اپنی اونٹنی کے متعلق سوچا کہ وہ تو پانچ اوقیہ سے بہتر ہے میرے غلام کے پاس بھی ایک اونٹنی ہے اور وہ بھی پانچ اوقیہ سے بہتر ہے، چنانچہ میں واپس آگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا۔