وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال قلت يا رسول الله إني رجل شاب وانا اخاف على نفسي العنت ولا اجد ما اتزوج به النساء كانه يستاذنه في الاختصاء قال: فسكت عني ثم قلت مثل ذلك فسكت عني ثم قلت مثل ذلك فسكت عني ثم قلت مثل ذلك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا ابا هريرة جف القلم بما انت لاق فاختص -[33]- على ذلك او ذر» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ وَأَنَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي الْعَنَتَ وَلَا أَجِدُ مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ النِّسَاءَ كأَنَّهُ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الِاخْتِصَاءِ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ فَسَكَتَ عَنِّي ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ فَسَكَتَ عَنِّي ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ فَاخْتَصِ -[33]- على ذَلِك أَو ذَر» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں جوان آدمی ہوں اور مجھے اپنے متعلق زنا کا اندیشہ ہے، جبکہ میرے پاس شادی کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، گویا کہ وہ آپ سے خصی ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں، راوی بیان کرتے ہیں، آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، پھر میں نے وہی بات عرض کی، آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر وہی عرض کی، آپ پھر خاموش رہے کوئی جواب نہ دیا، میں نے پھر وہی بات عرض کی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! تم نے جو کچھ کرنا ہے یا تمہارے ساتھ جو کچھ ہونا ہے اس کے متعلق قلم لکھ کر خشک ہو چکا اب اس کے باوجود تم خصی ہو جاؤ یا چھوڑ دو۔ “ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5076)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 88
تخریج: [صحیح بخاری 5076]
فقہ الحدیث: ➊ تقدیر میں جو لکھا ہوا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ ➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا کہ وہ زنا نہیں کریں گے، بلکہ شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہو گی اور یہ ہو کر رہا۔ ➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انتہائی متقی اور متبع کتاب و سنت تھے۔ وہ ہر وقت ہر لحاظ سے اپنے آپ کو گناہوں اور غلطیوں سے بچانا چاہتے تھے۔ ➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو خصی ہو جانے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري: 5071 وصحيح مسلم: 1404] ↰ لہٰذا اس حدیث میں «فاختص» کا لفظ زجر اور منع پر محمول ہے۔ ➎ متقی شاگرد اگر غلط فہمی سے کوئی غلط سوال بھی کر دے تو استاد کو چاہئیے کہ نرمی، تحمل اور حکمت عملی سے جواب دے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5076
5076. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں عرض کی: اللہ کے رسول! میں نوجوان مرد ہوں اور مجھے خود پر زنا کا خوف ہے اور میرے پاس مال بھی نہیں جس کے عوض عورتوں سے نکاح کرلوں۔ آپ خاموش رہے۔ میں نے پھر یہی عرض کی تو آپ بدستور خاموش رہے۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!جو تو کرنے والا ہے اس پر قلم خشک ہو چکا ہے خواہ خصی ہو یا نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5076]
حدیث حاشیہ: دوسری حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اجازت ہو تو میں خصی ہو جاؤں؟ اس صورت میں جواب سوال کے مطابق ہو جائے گا۔ اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی ہونے کی اجازت دے دی کیونکہ دوسری حدیثوں میں صراحتاً اس کی ممانعت وارد ہے بلکہ اس میں یہ اشارہ ہے کہ خصی ہونے میں کوئی فائدہ نہیں تیری تقدیرمیں جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور پورا ہوگا اگر حرام میں پڑنا لکھا ہے تو حرام میں مبتلا ہوگا اگر بچنا لکھا ہے تو محفوظ رہے گا۔ پھر اپنے کو نامرد بنانے کی کیا ضرورت ہے اور چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روزے بہت رکھا کرتے تھے لیکن روزوں سے ان کی شہوت نہیں گئی تھی لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روزوں کا حکم نہیں فرمایا۔ روایت میں متعہ کا ذکر ہے جو وقتی طور پر اس وقت حلال تھا مگر بعد میں قیامت تک کے لئے حرام قرار دے دیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5076
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5076
5076. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں عرض کی: اللہ کے رسول! میں نوجوان مرد ہوں اور مجھے خود پر زنا کا خوف ہے اور میرے پاس مال بھی نہیں جس کے عوض عورتوں سے نکاح کرلوں۔ آپ خاموش رہے۔ میں نے پھر یہی عرض کی تو آپ بدستور خاموش رہے۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!جو تو کرنے والا ہے اس پر قلم خشک ہو چکا ہے خواہ خصی ہو یا نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5076]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں فعل امر طلب کے لیے نہیں کہ خصی ہونے کے متعلق کچھ نرم گوشہ اختیار کیا گیا ہے بلکہ اس مقام پر یہ فعل تہدید کے لیے ہے کہ تم کچھ کرو یا نہ کرو، تقدیر الٰہی بہر حال نافذ ہو کر رہے گی۔ خصی ہونے یا نہ ہونے سے تقدیرِ الٰہی متأثر نہیں ہوگی۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کسر شہوت کے لیے روزے رکھنے کا حکم دیا تھا، لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو روزے رکھنے کے متعلق نہیں کہا کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دیگر اصحاب کی طرح اکثر و بیشتر روزے سے ہی رہتے تھے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نکاح متعہ کی بھی اجازت نہیں دی کیونکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا جبکہ نکاح متعہ کے لیے کچھ نہ کچھ تو عورت کو دینا پڑتا ہے۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں خصی ہونے کی اجازت نہیں دی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5076