وعن ابي اسيد الساعدي قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل من بني سلمة فقال: يا رسول الله هل بقي من بر ابوي شيء ابرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما والاستغفار لهما وإنفاذ عهدهما من بعدهما وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما وإكرام صديقهما» . رواه ابو داود وابن ماجه وَعَن أبي أسيد السَّاعِدِيّ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَقِي من برِّ أبويِّ شيءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ: «نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس اثنا میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ (کے قبیلے) سے ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی ایسی صورت ہے جس کے ذریعے میں ان کی وفات کے بعد ان سے حسن سلوک کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ان کے لیے دعا کرو، ان کے لیے مغفرت طلب کرو، ان کے بعد ان کی وصیت پر عمل کرو، وہ جو صلہ رحمی کیا کرتے تھے اسے جاری رکھو اور ان کے دوستوں کی تکریم کرو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (5142) و ابن ماجه (3664)»