وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى ثوب مصبوغ بعصفر موردا فقال: «ما هذا؟» فعرفت ما كره فانطلقت فاحرقته فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما صنعت بثوبك؟» قلت: احرقته قال: «افلا كسوته بعض اهلك؟ فإنه لا باس به للنساء» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى ثَوْبٌ مَصْبُوغٌ بِعُصْفُرٍ مُوَرَّدًا فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» فَعَرَفْتُ مَا كَرِهَ فَانْطَلَقْتُ فَأَحْرَقْتُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا صَنَعْتَ بِثَوْبِكَ؟» قُلْتُ: أَحْرَقْتُهُ قَالَ: «أَفَلَا كَسَوْتَهُ بَعْضَ أَهْلِكَ؟ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ لِلنِّسَاءِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا، مجھ پر گلابی کُسم کا رنگا ہوا کپڑا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ میں نے آپ کی ناگواری کو جان لیا اور میں نے جا کر اس (کپڑے) کو جلا دیا، بعد ازاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنے کپڑے کا کیا کیا؟“ میں نے عرض کیا، میں نے اسے جلا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اسے اپنے اہل خانہ میں سے کسی کو کیوں نہ پہنا دیا؟ کیونکہ اسے عورتوں کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4068) ٭ شفعة: مستور، وثقه ابن حبان و جھله ابن القطان.»