وعن زياد بن لبيد قال ذكر النبي صلى الله عليه وسلم شيئا فقال: «ذاك عند اوان ذهاب العلم» . قلت: يا رسول الله وكيف يذهب العلم ونحن نقرا القرآن ونقرئه ابناءنا ويقرؤه ابناؤنا ابناءهم إلى يوم القيامة قال: «ثكلتك امك زياد إن كنت لاراك من افقه رجل بالمدينة اوليس هذه اليهود والنصارى يقرءون التوراة والإنجيل لا يعملون بشيء مما فيهما» . رواه احمد وابن ماجه وروى الترمذي عنه نحوه وَعَن زِيَاد بن لبيد قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَقَالَ: «ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنحن نَقْرَأ الْقُرْآن ونقرئه أبناءنا ويقرؤه ابناؤنا أَبْنَاءَهُم إِلَى يَوْم الْقِيَامَة قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأُرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ عَنهُ نَحوه
سیدنا زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی (خوفناک) چیز کا ذکر کیا تو فرمایا: ”یہ علم کے رخصت ہو جانے کے وقت ہو گی۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علم کیسے رخصت ہو جائے گا، جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اور ہم اسے اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں، اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زیاد! تیری ماں تمہیں گم پائے، میں تو تمہیں مدینہ کا بڑا فقیہ شخص سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن وہ ان کے مطابق عمل نہیں کرتے۔ “ اس حدیث کو احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے بھی اسی طرح سے بیان کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أحمد (4/ 160 ح 17612، واللفظ له) و ابن ماجه (4048 و حديثه حسن بالشواھد) والترمذي (2653 من حديث أبي الدرداء وقال: ’’حسن غريب.‘‘ و سنده صحيح، وھو دون قوله: ’’إلٰي يوم القيامة.‘‘ فالحديث صحيح دون ھذا.) ٭ الأعمش مدلس و عنعن و سالم بن أبي الجعد لم يسمع من زياد بن لبيد رضي الله عنه.»
ذاك عند أوان ذهاب العلم قلت وكيف يذهب العلم ونحن نقرأ القرآن ونقرئه أبناءنا ويقرئه أبناؤنا أبناءهم إلى يوم القيامة قال كنت لأراك من أفقه رجل بالمدينة أوليس هذه اليهود والنصارى يقرءون التوراة والإنجيل لا يعملون بشيء مما فيهما
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 277
تحقيق الحديث: حسن ہے۔ ◄ یہ الفاظ سنن ابن ماجہ [4048] کے ہیں۔ ابن ماجہ اور مسند احمد [الموسوعه الحديثيه 29؍17] والی روایت دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ سلیمان بن مہران الاعمش مدلس تھے اور روایت معنعن (عن سے) ہے۔ ➋ امام بخاری نے سالم بن ابی الجعد کے بارے میں فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا کہ سالم نے زیاد (بن لبید) سے سنا ہو۔“[التاريخ الكبير 3؍344 ت1163] ◄ حافظ ابن حجر نے کہا: «وسالم لم يلق زيادا» ”اور سالم نے زیاد سے ملاقات نہیں کی۔“[الاصابه 1؍558 ترجمة زياد بن لبيد رضي الله عنه] ↰ لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔ المعجم الکبیر للطبرانی [5؍265] میں اس کا ایک منقطع (یعنی ضعیف و مردود) شاہد بھی ہے۔ ◄ سنن دارمی [246] والی روایت میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف مدلس ہے اور روایت «عن» سے ہے، لہٰذا ضعیف ہے۔ ◄ سنن ترمذی [2653] والی روایت حسن ہے جو کتاب، مشکوٰۃ المصابیح میں مختصراً ہے۔ ديكهئے: [اضواء المصابيح: ح245] ◄ اس کا متن درج ذیل ہے: سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اتنے میں آپ نے آسمان کی طرف نظر دوڑائی پھر فرمایا: ”یہ وقت ہے کہ لوگوں سے علم اٹھا لیا جائے گا پھر وہ کسی چیز پر طاقت نہیں رکھیں گے۔“ زیاد بن لبید الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم سے کس طرح علم اٹھا لیا جائے گا اور ہم نے قرآن پڑھ لیا ہے، اللہ کی قسم! ہم ضرور بالضرور قرآن پڑھیں گے اور اسے ہم اپنے بیوی بچوں کو بھی پڑھائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے زیاد تمہاری ماں تجھے گم پائے، میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا، یہ تورات اور انجیل یہود و نصاریٰ کے پاس ہے اور انہیں کیا فائدہ پہنچاتی ہے؟“(پھر اسی حدیث میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: ابوالدرداء نے سچ فرمایا، (اے جبیر بن نفیر!) اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتادوں کہ لوگوں میں سب سے پہلے کون سا علم اٹھا لیا جائے گا؟ خشوع یعنی عاجزی، عنقریب تم جامع مسجد میں داخل ہوگے تو کسی ایک آدمی کو بھی خشوع و خضوع کرنے والا نہیں پاؤ گے۔ [سنن الترمذي ص602 وقال: هذا حديث حسن غريب] ◄ اس کی سند حسن ہے اور اسے ابن حبان [115] حاکم [1؍98۔ 99] اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کے ساتھ ابن ماجہ والی روایت بھی حسن ہے۔ «والحمدلله»
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور وحی کے اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ ➋ امت کے بعض حصے میں بدعات اور گمراہیاں پیدا ہوں گی، جن کے پھیلنے کا اصل سبب عدم علم اور جہالت ہو گی۔ «أعاذنا الله منها» ➌ قیامت سے پہلے جہالت کا دور دورہ ہو گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4048
´قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے۔` زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا: ”یہ اس وقت ہو گا جب علم اٹھ جائے گا“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیاد! تمہاری ماں تم پر روئے، میں تو تمہیں مدینہ کا سب سے سمجھدار آدمی سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن ان میں سے کسی بات پر بھی یہ لوگ عمل ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4048]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نےاسے صحیح قراردیا ہے اور اس کی بابت کافی تفصیل سے بحث کی ہے جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام احمد: 29/ 17، 18 والمشكاة للألباني، رقم: 245، 277)
(2) قرآن کا علم صرف الفاظ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھانے کا نام ہے۔
(3) صحابہ کرام علم کا لفظ صرف قرآن وحدیث کے لیے بولتے تھے۔ باقی علوم کی حیثیت فنون کی ہےجن کا مقصد مادی ضروریات کو پورا کرنا یا مادی آسائشیں حاصل کرنا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4048