وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لياتين على امتي ما اتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من اتى امه علانية لكان في امتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق امتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما انا عليه واصحابي» . رواه الترمذي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت پر ایسا وقت آئے گا جیسے بنی اسرائیل پر آیا تھا، اور وہ مماثلت میں ایسے ہو گا جیسے جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ بدکاری کی ہو گی تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا شخص ہو گا، بے شک بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک ملت کے سوا باقی سب جہنم میں ہوں گے۔ “ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ ایک ملت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2641 وقال: حسن غريب.) ٭ ابن أنعم الإفريقي ضعيف (تقريب التهذيب: 3862) و للحديث شواهد ضعيفة.»
ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 171
تحقیق الحدیث اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اس روایت کو امام ترمذی [مصور من المخطوطه 172 1، وقال: حسن غريب الخ] اور حاکم [129/1 ح444] نے «سفيان الثوري عن عبدالرحمن بن زيادالافريقي عن عبدالله بن يزيد عن عبدالله بن عمرو (بن العاص رضي الله عنه)» کی سند سے روایت کیا ہے۔ ◄ سفیان ثوری کی متابعت عیسی بن یونس، ابواسامہ اور عبدہ بن سلیمان نے کر رکھی ہے۔ دیکھئے: [الضعفاءللعقيلي 2 262] قاضی عبدالرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی نیک انسان ہونے کے ساتھ حافظے کی وجہ سے ضعیف تھا۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 3862] جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 56/5، 65/8، 250/10] روایت مذکورہ میں ایک جملہ «ما أنا عليه و أصحابي»”جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ ہے جس کا الضعفاء الکبیر للعقیلی [262/2، ترجمه عبدالله بن سفيان الخزاعي] میں ایک بےاصل ضعیف شاہد بھی ہے۔ عبداللہ بن سفیان مذکور کو عقیلی نے ضعفاء میں ذکر کر کے (یعنی ضعیف قرار دے کر) فرمایا: ”اس (حدیث) کی یحیی بن سعید (الانصاری) سے کوئی اصل نہیں ہے۔“[الضعفاء262/2، ت 815]
تنبیہ: اگر کوئی کہے کہ عبداللہ بن سفیان الخزاعی الواسطی کو حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے تو عرض ہے کہ ہمیں کتاب الثقات میں عبداللہ بن سفیان مذکور کا ذکر نہیں ملا۔ ◄ الشریعہ للآجری [433/1ح111] المجروحین لابن حبان [226/2] اور الکبیر للطبرانی [مجمع الزوائد 156/1، 259/7] وغیرہ میں سیدنا ابوالدرداء، ابوامامہ، واثلہ بن الاسقع اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے ایک روایت میں آیا ہے: «من كان على ما أنا عليه و أصحابي» اس روایت کے راوی کثیر بن مروان الشامی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: «قد رأيته، كان كذابا» ”میں نے اسے دیکھا ہے، وہ کذاب (بہت جھوٹا) تھا۔“[تاريخ بغداد 482/12 ت6954 و سنده صحيح] ◄ عبداللہ بن یزید بن آدم الدمشقی کی اس روایت کے بارے میں امام ابوحاتم الرازی نے کہا: ”میں اسے (عبداللہ بن یزید کو) نہیں جانتا اور یہ حدیث باطل ہے۔“[الجرح و التعديل 197/5] معلوم ہوا کہ یہ سند باطل اور موضوع ہے۔
خلاصتہ التحقیق: «ما أنا عليه و اصحابي» کے الفاظ صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں ہیں۔ البتہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ”طائفة منصورہ“ فرقۂ ناجیہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے راستے پر گامزن ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میرے صحابہ میری امت کا امن (حفاظت کا باعث) ہیں، جب میرے صحابہ (دنیا سے) چلے جائیں گے تو میری امت میں وہ چیزیں (مثلاً گمراہیاں اور بدعات وغیرہ) آ جائیں گی جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔“[صحيح مسلم: 2531، اضواء المصابيح: 5999] ↰ اس حدیث سے بھی یہی ظاہر ہے کہ نجات والا راستہ صرف وہی ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گامزن تھے۔ «والحمد لله رب العالمين»