وعن العرباض بن سارية قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ايحسب احدكم متكا على اريكته يظن ان الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن الا وإني والله قد امرت ووعظت ونهيت عن اشياء إنها لمثل القرآن او اكثر وإن الله لم يحل لكم ان تدخلوا بيوت اهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا اكل ثمارهم إذا اعطوكم الذي عليهم» رواه ابو داود وفي إسناده: اشعث بن شعبة المصيصي قد تكلم فيه وَعَن الْعِرْبَاض بن سَارِيَة قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أيحسب أحدكُم متكأ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ أَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَهَيْتُ عَنَ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَفِي إِسْنَادِهِ: أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَة المصِّيصِي قد تكلم فِيهِ
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے صرف وہی کچھ حرام قرار دیا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے، سن لو! اللہ کی قسم! میں نے بھی کچھ چیزوں کے بارے میں حکم دیا ہے، وعظ و نصیحت کی اور کچھ چیزوں سے منع کیا، بلاشبہ وہ بھی قرآن کی مثل ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے، بے شک اللہ نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا کہ تم بلا اجازت اہل کتاب (ذمیوں) کے گھروں میں داخل ہو جاؤ اور جب تک وہ تمہیں جزیہ دیتے رہیں، ان کی خواتین کو مارنا اور ان کے پھل کھانا تمہارے لیے حلال نہیں۔ “ ابوداؤد، اس کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی راوی ہے جس پر کلام کیا گیا ہے۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3050) ٭ أشعث بن شعبة و ثقه ابن حبان وحده و ضعفه أبو زرعة وغيره و ضعفه راجح ولم يثبت توثيقه عن أبي داود و قال فيه الذهبي: ليس بالقوي. (ديوان الضعفاء: 473)»
الجنة لا تحل إلا لمؤمن وأن اجتمعوا إلى الصلاة أيحسب أحدكم متكئا على أريكته قد يظن أن الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن ألا وإني والله قد وعظت وأمرت ونهيت عن أشياء إنها لمثل القرآن أو أكثر الله لم يحل لكم أن تدخلوا بيوت أهل الكتاب إلا بإذن ضرب نسائهم
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 164
تحقیق الحدیث اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت کا راوی اشعث بن شعبہ قول راجح میں ضعیف ہے، اسے صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا اور ابوزرعہ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ امام ابوداود سے اس کی توثیق ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس توثیق کا راوی مجہول الحال ہے۔ ◄ حافظ ذہبی نے اشعث بن شعبہ کے بارے میں کہا: «ليس بقوي»”وہ قوی نہیں ہے۔“[ديوان الضعفاء: 473] ◄ تحریر تقریب التہذیب [ج1 ص146 ت525] میں توثیق ابی داود اور توثیق ابن حبان کی وجہ سے اسے «صدوق حسن الحديث» قرار دیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ نیز دیکھئے: [كشف الإبهام لما تضمنه تحرير التقريب من الأوهام ص256]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3050
´ذمی مال تجارت لے کر پھریں تو ان سے عشر (دسواں حصہ) وصول کیا جائے گا۔` عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”عبدالرحمٰن! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3050]
فوائد ومسائل: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ ان روایات میں لفظ (عشور) غالباً مشابہت کی وجہ سے استعمال کیا گیا ہے۔ ورنہ مسلمانوں کی زرعی آمدنی پر بھی عشر لگتا ہے۔ ملحوظہ۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ مگر سنت کے حجت ہونے پر دال ہے۔ اور یہی مضمون دیگر صحیح احادیث سے مثلا ً دیکھئے۔ (سنن ابی دائود۔ فی لزوم السنۃ۔ حدیث۔ 4604، وما بعد) اور سب سے بڑھ کر خود قرآن مجید کی بھی یہی دعوت ہے۔ مثلا: (مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ)(النساء:80)(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)(الأحزاب:71)(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّـهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ)(النور:52)(قُل أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ)(آل عمران:32)(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ)(محمد:33)(وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا)(النساء:115)(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ)(الحشر:7)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3050