سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے اور اہل اسلام کے لیے عربی زبان میں اس کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے۔ “ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 155
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 7362]
فقہ الحدیث:
➊ اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں جو عبرانی زبان والی تورات کو مانتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں کے پاس تورات اور ان کی مذہبی کتابوں کی صحیح متصل سند موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ لوگ اندھیروں میں سرگرداں بھٹک رہے ہیں۔
➋ اہل کتاب کی جو روایت کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہ ہو تو اسے بیان کرنا جائز ہے۔
➌ مشکل معاملات جن میں فیصلہ نہ ہو سکے، ان کے بارے میں توقف کرنا ضروری ہے۔
➍ کتاب و سنت کے خلاف رائے پیش نہیں کرنا چاہئیے۔
➎ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھنا جائز ہے، بشرطیکہ کتاب و سنت، اجماع اور سلف صالحین کے فہم کو مدنظر رکھا جائے۔
➏ اہل حق کے مخالفین کی کتابیں پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ پڑھنے والا عالم بالحق ہو اور اس کا مقصود حق کا دفاع اور باطل کا رد ہو۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 155
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4485
4485. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اہل کتاب، تورات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4485]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ اوپر گزر چکا ہے۔
وما أنزل سے مراد قرآن مجید ہے جو پہلی ساری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔
اہل کتاب کی جن باتوں کا قرآن میں رد موجود ہے وہ ضرور قابل تکذیب ہیں اور جن کے متعلق خاموشی ہے، ان کے بارے میں یہ اصول ہے جو بیان ہوا۔
آج کل کے اہل کتاب بہت زیادہ گمراہی میں گرفتار ہیں۔
لہٰذا وہ اس حدیث کے مصداق بہت ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4485
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7542
7542. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ”اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق وتکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7542]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ اگر اہل کتاب سچ بولیں توان کی کتاب کا ترجمہ بھی وہی ہوگا جو اللہ کی طرف سےاترا۔
امام بیہقی نےکہا کہ اللہ کا کلام باختلاف لغات مختلف نہیں ہوتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7542
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4485
4485. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اہل کتاب، تورات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4485]
حدیث حاشیہ:
1۔
قرآن مجید میں ہے کہ وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اس لیے پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور یہ ایمان اجمالی ہو گا۔
اللہ تعالیٰ بنے اپنے انبیاءؑ پر انھیں نازل فرمایا اور جو کچھ ان کتابوں میں تھا اس بنا پر ان کے بیان کردہ جوحقائق قرآن کریم کے مطابق ہیں وہ قابل تصدیق ہیں اور جن کا رد قرآن کریم میں موجود ہے وہ قابل تکذیب ہیں اور جن باتوں کے متعلق قرآن کریم خاموش ہے ان کے متعلق وہی توقف کا اصول ہے جو حدیث بالا مذکورہےکیونکہ اہل کتاب جو کچھ بیان کریں گے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں، اگر ہم اس کی تصدیق کریں تو ممکن ہے کہ وہ درحقیقت صحیح نہ ہو بلکہ تحریف شدہ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ہم اس کی تکذیب کریں جبکہ وہ درحقیقت صحیح اور درست ہو۔
چونکہ انبیائے کرامؑ کے احکام و شرائع میں جزوی فرق رہا ہے۔
اس لیے موقف ضروری ہے۔
2۔
موجود اہل کتاب تو بہت زیادہ گمراہی میں گرفتار ہیں لہٰذا وہ اس حدیث کے زیادہ مصداق ہیں اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشکل معاملات میں توقف کرنا چاہیے تصدیق و انکار میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4485
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7362
7362. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: اہل کتاب عبرانی زبان میں تورات پڑھے اور مسلمانوں کے لیے عربی زبان میں اس کی تفسیر کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم نے تو اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب ہی کرو بلکہ یوں کہو: ”ہم اس چیز پر ایمان لائے جو ہم نازل کی گئی اور جو تم پر نازل کی گئی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7362]
حدیث حاشیہ:
1۔
اہل کتاب کے بیان کیےہوئے جن حقائق کی کتاب و سنت سے تائید ہوتی ہو ان کی تصدیق کرنی چاہیے اور جن کی قرآن و حدیث نے تکذیب کی ہے انھیں جھوٹا کہنا چاہیے اس کے علاوہ دیگر باتوں کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرنی چاہیے۔
2۔
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اہل کتاب کی تصدیق اور تکذیب نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے اس کا تقاضا ہے کہ ان سے کسی قسم کا سوال نہ کیا جائے۔
قرآن مجید میں ہے۔
”اگر آپ کو اس میں کچھ شک ہو جو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے تورات پڑھتے تھے۔
“ (یونس: 10۔
94)
اس آیت سے مراد عقیدہ توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی بشارتیں تورات و انجیل میں موجود ہیں جو تحریف کے باوجود آج بھی مذہبی کتابوں میں پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کا حکم مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
(واللہ أعلم)
(فتح الباري: 408/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7362
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7542
7542. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ”اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق وتکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7542]
حدیث حاشیہ:
1۔
اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ان کی مذہبی کتاب تورات عبرانی زبان میں تھی۔
انھوں نے اپنی خواہشات اور مفادات کے پیش نظر اس میں ردوبدل کر دیا تھا۔
ایسے حالات میں ان کے ترجمہ اور تفسیر کا کیسے اعتبار کیا جاتا۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جو اہل اسلام پر تعلیمات قرآن اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صورت میں اتاری تھیں ان کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تواس ترجمے کو اللہ کا کلام نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ تو مترجم کی کوشش وکاوش اور اس کا فعل ہے اور بندے کا فعل مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
اس سے اشاعرہ کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام جس زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی رہتا ہے، حالانکہ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف محل نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7542