عن زيد بن ثابت قال بينما النبي صلى الله عليه وسلم في حائط لبني النجار على بغلة له ونحن معه إذ حادت به فكادت تلقيه وإذا اقبر ستة او خمسة او اربعة قال كذا كان يقول الجريري فقال: «من يعرف اصحاب هذه الاقبر فقال رجل انا قال فمتى مات هؤلاء قال ماتوا في الإشراك فقال إن هذه الامة تبتلى في قبورها فلولا ان لا تدافنوا لدعوت الله ان يسمعكم من عذاب القبر الذي اسمع منه ثم اقبل علينا بوجهه فقال تعوذوا بالله من عذاب النار قالوا نعوذ بالله من عذاب النار فقال تعوذوا بالله من عذاب القبر قالوا نعوذ بالله من عذاب القبر قال تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قالوا نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قال تعوذوا بالله من فتنة الدجال قالوا نعوذ بالله من فتنة الدجال» . رواه مسلم عَن زيد بن ثَابت قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرُ سِتَّةٍ أَو خَمْسَة أَو أَرْبَعَة قَالَ كَذَا كَانَ يَقُول الْجريرِي فَقَالَ: «من يعرف أَصْحَاب هَذِه الأقبر فَقَالَ رجل أَنا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاك فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَاب النَّار فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّه من عَذَاب الْقَبْر قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس اثنا میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خچر پر سوار بنونجار کے باغ میں تھے جبکہ ہم بھی آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک خچر بدکا، قریب تھا کہ وہ آپ کو گرا دیتا، وہاں پانچ، چھ قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان قبروں والوں کو کون جانتا ہے؟“ ایک آدمی نے عرض کیا، میں: آپ نے فرمایا: ”وہ کب فوت ہوئے تھے؟“ اس نے کہا: حالت شرک میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اس امت کے لوگوں کا ان کی قبروں میں امتحان لیا جائے گا، اگر ایسے نہ ہوتا کہ تم دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ عذاب قبر تمہیں سنا دے جو میں سن رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا رخ انور ہماری طرف کرتے ہوئے فرمایا: ”جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ “ انہوں نے عرض کیا: ہم عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عذ��ب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ “ انہوں نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ “ انہوں نے کہا: ہم ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ “ انہوں نے کہا: ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (67/ 2867)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 129
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 7213]
فقہ الحدیث: ➊ عذاب قبر اسی زمین پر ہوتا ہے جسے قبر کے قریب والے زمین والے جانور سنتے ہیں۔ ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اللہ ہی کی صفت خاصہ ہے۔ ➌ اگر عام لوگوں کو عذاب قبر کا نظارہ ہو جائے تو میت کو دفن کرنے سے جاہل مارے خوف کے دور بھاگیں گے اور اہل علم بھی عام لوگوں کے مردوں سے دور رہیں گے۔ ➍ عذاب قبر ایمان بالغیب میں سے ہے۔ ➎ قبر سے مراد زمینی گڑھا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7213
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوکر نہیں سنی،بلکہ مجھےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے،ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ بدک گیا وہ آپ کو گرانے لگا تھا (دیکھا تو) وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں (ابن علیہ نے) کہا: جریری اسی طرح کہا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7213]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برزخ کے عذاب کو جن و انس سے مخفی رکھا ہے، ان کو اس کا پتا بالکل نہیں چلتا، لیکن ان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو اس کا کچھ ادراک و احساس ہو جاتا ہے، بنو نجار کے باغ میں جن لوگوں کی قبریں تھیں، ان پر عذاب ہو رہاتھا، آپ جس خچر پر سوار تھے، اس کو اس کا احساس ہوا اور اس پر اثر پڑا لیکن آپ کے اصحاب ورفقاء کو اس کا کوئی احساس نہیں ہوا اور آپ اس عذاب کو سن رہے تھے، اس لیے آپ نے ساتھیوں کو فرمایا، ''قبر کے عذاب کی جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمادی ہے، اگر اللہ تعالیٰ وہ کیفیت تم پر منکشف کردے اور تمہیں بھی مردوں کی چیخ و پکار سنادے تو اس کا خطرہ ہے کہ تمہیں موت سے اتنی وحشت ہوجائے کہ تم ان کو دفن بھی نہ کرسکو، اس لیے میں اللہ سے یہ دعا نہیں کرتا کہ وہ تمہیں بھی سنا دے، حقیقت یہ ہے کہ مرنے والوں پر مرنے کے بعد جو کچھ گزرتا ہے، اگر ہم سب اس کو دیکھ لیں یا سن لیں تو ہم کوئی کام کاج نہ کرسکیں اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے، اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی طرف متوجہ فرمایا، جن سے بچنے کی ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں دوزخ کے عذاب، قبر کے عذاب اور ہر قسم کے ظاہری و باطنی کھلے اور پوشیدہ فتنوں سے پناہ دے۔