صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
2. باب بَيَانِ الصَّلَوَاتِ الَّتِي هِيَ أَحَدُ أَرْكَانِ الإِسْلاَمِ:
2. باب: نمازوں کا بیان جو اسلام کا ایک رکن ہے۔
Chapter: Explaining the prayers which are one of the pillars of Islam
حدیث نمبر: 101
Save to word اعراب
حدثني يحيى بن ايوب وقتيبة بن سعيد جميعا، عن إسماعيل بن جعفر ، عن ابي سهيل ، عن ابيه ، عن طلحة بن عبيد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا الحديث نحو حديث مالك، غير انه قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افلح، وابيه إن صدق، او دخل الجنة، وابيه إن صدق".حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْلَحَ، وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ".
اسماعیل بن جعفر نے ابو سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نےحضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، مالک سے حدیث کی طرح روایت کی، سوائے اس کے کہ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کامیاب ہوا، اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کر دکھایا ِ یا (فرمایا:) جنت میں داخل ہو گا، اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کر دکھایا۔
امام صاحب یہی روایت دوسرے استاد سے نقل کرتے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کامیاب ہوا، اس کے باپ کی قسم! اگر سچا ہے، یا فرمایا: جنت میں داخل ہوگا اس کے باپ کی قسم! اگر سچا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 11

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث السابق برقم (100)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 101 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 101  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
وأَبِيْهِ:
اس کے باپ کی قسم،
آپ (ﷺ) نے باپ کی قسم سے منع کرنے کے باوجود،
باپ کی قسم اٹھائی ہے اس کا جواب یہ ہے (1)
یہ قسم سے منع کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔
(2)
یہ عربوں کے کلام ومحاورہ یا ان کے عرف وعادت کے مطابق ہے،
جس میں قسم کا ارادہ یا قصد نہیں ہوتا۔
محض کلام میں زور وتاکید پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہے۔
(3)
قسم کا ارادہ یا نیت نہ تھی،
تکیہ کلام کے طور پر عَقْرَی،
حَلْقَی "تَرِبَتْ یَدَاہُ " کی طرح کہہ دیا،
اس طرح یہ لغو قسم کی ایک شکل ہے جس پر مؤاخذہ نہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 101   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.