419. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور نماز اور رکوع کے متعلق فرمایا:”بےشک میں تمہیں اپنے پیچھے سے اس طرح دیکھتا ہوں، جس طرح سامنے سے دیکھتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:419]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ نے مصالح مساجد کی طرف اشارہ فرمایا کہ امام کو چاہیے وہ مقتدیوں کے احوال پر نظر رکھے۔
اگر وہ نماز وغیرہ صحیح نہ پڑھتے ہوں تو انھیں تنبیہ کرے۔
اگر اسے دائیں بائیں التفات کرنا پڑے تو اس میں چنداں حرج نہیں۔
البتہ یہ التفات گوشہ چشم سے ہونا چاہیے اپنا منہ اور سینہ قبلے کی طرف رکھے، کیونکہ چہرے کا انحراف کراہت اور سینے کا انحراف فساد نماز کا حکم رکھتا ہے۔
بعض شارحین نے رکوع کی مناسبت سے خشوع سے مراد سجدہ لیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک بہتر ہے کہ خشوع کو اپنے عموم پر رکھا جائے تاکہ تمام افعال نماز اس میں آجائیں خاص طور پر رکوع کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں کوتاہی زیادہ ہوتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جلد بازی میں بہت سے لوگ رکوع کا اتمام نہیں کرتے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں خشوع کے بجائے سجود کے الفاظ ہیں۔
(فتح الباري: 666/1) 2۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں پچھلی سمت سے بھی سامنے کی طرح دیکھتا ہوں۔
“ اس روایت کے متعلق شارحین کے کئی اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس سے مراد آپ کا معلوم کرلینا ہے، خواہ بذریعہ وحی ہو یا بطریق الہام ان کے ذریعے سے آپ کو مقتدی حضرات کی حرکات و سکنات بتادی جاتی تھیں مگر یہ درست نہیں، کیونکہ اس سے پیٹھ پیچھے کی قید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ دائیں بائیں کے لوگوں کو کسی قدر التفات نظر سے دیکھ لیتے ہوں گے، مگر یہ رائے بھی بے وزن ہے، کیونکہ اس میں آپ کی کیا خصوصیت رہی۔
دیوار قبلہ میں آئینے کی طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے نمازیوں کی تصاویر آجاتی تھیں جس سے آپ صورت حال سے مطلع ہو جاتے تھے۔
عام مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، لیکن اس پر قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔
رسول اللہ ﷺ کو پشت مبارک میں قوت باصرہ عطا فرمائی گئی تھی، پھر آگے وضاحت ہے کہ قوت باصرہ مہرنبوت میں تھی یا دونوں کندھوں کے درمیان سوئی کی نوک کی طرح آنکھیں عطا کی گئی تھیں۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ اس موقف کو بھی محققین نے مسترد کردیا ہے کہ اگر ايسی بات ہوتی تو سیرت ہوتی تو سیرت نگار آپ کے احوال میں اس کا تذکرہ کرتے۔
سب سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے کہ سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھنا رسول اللہ ﷺ کے خصائص سے تھا اور وہی علم وادراک حقیقی کا سبب تھا جو بطور خرق عادت
(معجزہ) آپ کو حاصل تھا۔
امام بخاری ؒ کا پسندیدہ موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ انھوں نے اسی روایت کو علامات نبوت میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا بھی رجحان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعام انسانوں کی مقررہ عادت کے خلاف انھی آنکھوں سے ہرسمت دیکھنے کی طاقت عطا فرما دی تھی۔
اس لیے بعید نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے نماز میں یہ خصوصیت ہو کہ آپ مقتدیوں کو بلا جہت دیکھتاہوں، لیکن یہ حالت کلی طور پر نہیں رہتی تھی کہ اس سے مسئلہ علم غیب کشیدکیا جا سکے، کیونکہ ابو بکرہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد میں آئے جبکہ جماعت ہو رہی تھی۔
انھوں نے دور ہی سے رکوع کر لیا۔
نماز کے بعد دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں تنبیہ فرمائی۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ہانپتے کانپتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت بلند آواز سے
(حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ) کے الفاظ کہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد دریافت فرمایا کہ بآواز بلندیہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ بتانے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں شخص تھا اگر آپ کو ہمیشہ بحالت نماز پیچھے سے نظر آتا رہتا تو دریافت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
3۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کو خشوع اور اتمام ارکان کی طرف توجہ دینی چاہیے، نیز امام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو نماز سے متعلقہ مسائل واحکام پر متنبہ کرتا رہے۔
خاص طور پر اگر ان میں کوتاہی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے میں پوری توجہ کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 667/1) واللہ أعلم۔